شریف برادران کی راہیں جدا، شہباز شریف نے اپنے بھائی کو اکیلا چھوڑ دیا، دونوں میں کیا چل رہا ہے؟چوہدری نثار نے پارٹی کیوں چھوڑی، معروف صحافی سلیم صافی نے سنسنی خیز انکشافات کر دئیے

1  دسمبر‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)حکمران جماعت تحریک انصاف کے شدید ناقد اور معروف صحافی ، تجزیہ کار اور اینکر سلیم صافی نواز شریف پر برس پڑے، خاموشی کے بجائے کھل کر بات کرنے کا مشورہ دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق معروف صحافی سلیم صافی کا کہناہے کہ میاں نوازشریف کی خاموشی ایسی بھرپور اور پراسرار ہے کہ اس شک کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ۔ ڈیل ہوئی ہے ،

ڈیل کی کوشش کی جارہی ہے یا پھر خوف ہے ، اس کے سوا اس خاموشی کی کوئی اور توجیح پیش ہی نہیں کی جاسکتی ۔ اپنے کالم میں سلیم صافی لکھتے ہیں کہ میاں نوازشریف نے چپ کا روزہ کیوں رکھا ہے اور مریم نواز صاحبہ کہاں غائب ہیں ؟۔ کہتے ہیں ڈیل کی ہے اور نہ کریں گے لیکن خاموشی ایسی بھرپور اور پراسرار ہے کہ اس شک کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ۔ ڈیل ہوئی ہے ، ڈیل کی کوشش کی جارہی ہے یا پھر خوف ہے ، اس کے سوا اس خاموشی کی کوئی اور توجیح پیش ہی نہیں کی جاسکتی ۔ میاں شہبازشریف صاحب سے ملاقاتیں ہوسکتی ہیں لیکن میڈیا سے بات نہیں کی جاتی ۔ عدالت میں پیشی کیلئے تسلسل کیساتھ اسلام آباد آیا جاسکتا ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی کیلئے محترمہ کی رحلت کا بہانہ کرکے اسلا م آباد آنے سے معذرت کی جاتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ ہم حکومت کو گرانا نہیں چاہتے اس لئے خاموش ہیں ۔ جبکہ ہم عرض کرتے ہیں کہ حکومت گراسکتے ہو اور نہ گرانے کی کوشش ہونی چاہئے لیکن یہ کہاں کی سیاست ہے کہ قوم کو حکومت اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود صرف اپنے کیسز کی فکر کی جائے ۔ ڈالر ایک دن میں آٹھ روپے مہنگا ہو تو بھی میاں نوازشریف خاموش رہتے ہیں۔ چلیں اور کچھ نہیں کرسکتے بیان تو جاری کرسکتے ہیں ۔ لیکن الٹا میڈیا کو طعنہ دیا کہ چونکہ آپ لوگ نشر نہیں کرسکتے اسلئے میرے بولنے کا فائدہ نہیں

لیکن یہ نہیں سوچتے کہ بطور لیڈر میڈیا کو آزادی دلوانابھی ان جیسے لیڈروں کا فرض ہے ۔ چلیں مان لیا کہ میڈیا سنسر شپ کی زد میں ہے اور میاں صاحب جیسے لوگوں کے خیالات کو من وعن رپورٹ نہیں کرسکے گا لیکن سوال یہ ہے کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ کے ٹوئٹر کو کیا ہوگیا ۔ وہ جو ہر گھنٹے اس اکائونٹ سے کوئی نہ کوئی ٹوئٹ نازل ہوتا تھا ، اتنے عرصے سے خاموش کیو ں ہے ؟۔

وہ آپ کا تقریر نویس جو آپ کی تقریروں میں اداروں کیخلاف زہر گھول کر دیا کرتا تھا اور جو آپ کو راتوں رات طیب اردوان بنا کر اداروں سے لڑانے کا مشورہ دے رہا تھا ، کہاں غائب ہے ؟۔ آخر آپ کے اوپننگ بیٹسمین خواجہ آصف کے لہجے میں وہ تمکنت کیوں نظر نہیں آتی ؟۔ ہم جانتے تھے کہ آپ کے دائیں بائیں ماروی میمن ، خسرو بختیار اور اسی نوع کے کھوٹے سکے ہیں جو آزمائش

کے وقت میں ساتھ نہیں دے سکتے ۔ ہم جانتے تھے کہ جو بیانیہ آپ لے کر چل پڑے ہیں اس میں خود آپ کا جانشین اور سگا بھائی بھی آپ کے ساتھ نہیں ۔ ہم جانتے تھے کہ آپ کے وہ خوشامدی مشیر اور تقریر نویس جو آپ کوجنگ کی طرف دھکیل رہے تھے ، خود کتنے وفادار اور بہادر ہیں ۔ ہم جانتے تھے کہ آپ جس مسلم لیگ کے سربراہ ہیں وہ ووٹ دینے والی پارٹی ضرور ہے لیکن لڑنے والی ہر گز نہیں ۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم جانتے تھے کہ آپ نے طیب اردوان کی طرح ڈیلیور کیا ہے اور نہ ان کی طرح دیگر اداروں کے مقابلے میں برتر اخلاقی پوزیشن پر فائز ہیں ۔ اسی لئے چوہدری نثار علی خان پارٹی کے اندر آپ کو مشورہ دے رہے تھے کہ گزارہ میاں صاحب گزارہ اور اسی لئے ہم جیسے طالب علم ٹی وی اور اخبار کے ذریعے آپ سے التجائیں کرتے رہے کہ لڑائی مول لینے کی

بجائے ڈیلیوری اور احتساب کے منصفانہ نظام کی طرف توجہ دیں۔ لیکن افسوس کہ آپ اپنے خوشامدیوں کے ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ اور ’’ روک سکو تو روک لو‘‘ جیسے سہانے نعروں پر یقین کرنے لگے ۔یقیناً خوشامدی ٹولے نے اہم کردار ادا کیا لیکن اس انجام کے ذمہ دار میاں نوازشریف خود یوں ہیں کیونکہ مشیروں اور اردگرد کے ٹولے کا انتخاب بھی لیڈر خود کرتا ہے ۔

یہ کسی اور کا نہیں بلکہ خود میاں صاحب کا فیصلہ تھا کہ کھری بات سنانے والے اور منہ پر صحیح مشورہ دینے والے چوہدری نثار علی خان اور غوث علی شاہ جیسے لوگوں کو دور اور خوشامدیوں کو قریب کیا جائے ۔ یہ کسی اور کا نہیں بلکہ خود میاں صاحب اور ان کی بیٹی کا فیصلہ تھا کہ مخلصانہ تنقید کرنے والے صحافیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے اور خوشامدیوں کو سرکاری عہدے دے کر

میڈیا کو بدنام کیا جائے ۔ مسلم لیگ(ن) کی بدحالی میں بنیادی کردار کسی اور کا نہیں بلکہ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کا ہی رہا ۔ یہ عجیب فوج تھی کہ جس کا سپریم کمانڈر(میاں نوازشریف) اور چیف آف جنرل اسٹاف (میاں شہبازشریف) مخالف فریق کے منت ترلے اور بیچ بچائو میں مصروف تھا۔ ایک بھائی ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ میدان میں تھا اور دوسرا بھائی اس

نعرے کو اپنانے کی بجائے ترقیاتی کاموں پر ووٹ مانگ رہا تھا۔ انتخابات کے بعد ایک بھائی نتائج کو یکسر مسترد کررہا تھا اور دوسرا بھائی اسمبلی میں بیٹھنے اور لیڈر آف دی اپوزیشن بننے کیلئے بے تاب تھا۔ میاں نوازشریف نے میاں شہباز شریف کو اس لائن کی اجازت اس لئے دے رکھی تھی کہ سوچ رہے تھے کہ خود انقلابی رہ کر بھائی کے ذریعے کوئی راستہ نکال لیں گے لیکن حتمی نتیجے کے طور پر وہ ان کے بیانیے کو آگے لے جاسکے اور نہ کوئی راستہ نکال سکے ۔ میاں شہباز شریف نے یہ سوچا تھا کہ وہ بچ گئے تو بھائی کو بھی بچالیں گے لیکن خود بھی اس لئے نہیں بچ سکے کہ مخالف فریق جانتا تھا کہ یہ حتمی نتیجے کے طور پر بھائی ہی کے ساتھ ہیں ۔

موضوعات:



کالم



ناکارہ اور مفلوج قوم


پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…