عالمی معیشت پر امریکا کی 142 سالہ حکمرانی کا خاتمہ

13  ‬‮نومبر‬‮  2014

عالمی معیشت پر امریکا کا 142 سالہ دورِ حکمرانی اختتام پذیر ہوگیا ہے، اور اب زمام اقتدار چین کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے اختتام پر چینی معیشت کا حجم 17.632 ٹریلین ( 176.32 کھرب ڈالر) ہوجائے گا جب کہ امریکی معیشت 174.16 کھرب ڈالر تک محدود رہے گی۔

یہ اعدادوشمار ’پرچیزنگ پاور پیریٹی‘ (PPP) کی مناسبت سے ہیں جس میں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ ایک ملک میں اشیاء دوسرے کے مقابلے میں سستی ہیں۔ بیشتر ماہرین اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ کسی معیشت کو پرچیزنگ پاور پیریٹی کے تناظر میں جانچنا ہی سب سے منصفانہ طریقہ ہے کیوں کہ اس طریقے میں مختلف ممالک میں رہن سہن پر آنے والے اخراجات کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی پذیر ممالک میں تنخواہیں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں مگر یہاں اشیاء اور خدمات بھی کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ عامل افراد کی قوت خرید پر اثرانداز ہوتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ پی پی پی میں لوگوں کے معیار زندگی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ چین کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے، جو کہ امریکا کی آبادی سے چار گنا زیادہ ہے، مگر یہ حال ہی میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی شہری چین کے باشندوں سے زیادہ دولت مند ہیں۔

امریکا 1872ء سے عالمی اقتصادی لیڈر چلا آرہا تھا۔ اس نے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا جو 142 سال تک برقرار رہا۔ اٹھارھویں صدی کے وسط میں شروع ہونے والے صنعتی انقلاب میں برطانیہ سب سے آگے تھا، مگر اس وقت امریکا بھی اس دوڑ میں حصہ لینے کی تیاریاں کررہا تھا۔

1865ء میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد امریکا میں برق رفتاری سے صنعتیں قائم ہونے لگیں، اس دوران شہری آبادکاری اور آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا اور تین کروڑ کے لگ بھگ یورپی باشندے امریکا میں جاکر آباد ہوگئے۔ محض سات برس کے بعد امریکا برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا، اور رواں برس تک یہ اعزاز اس کے پاس رہا۔

پیداوار، عالمی شہرت یافتہ برانڈز، امریکی ڈالر کی کام یابی اور اس حقیقت نے، کہ دنیا کا 62 فی صد سرمایہ ڈالر کی صورت میں محفوظ ہے، امریکا کو عالمی اقتصادی لیڈر بنائے رکھا۔

اٹھارھویں صدی تک چین کا شمار بڑے تجارتی ممالک میں ہوتا تھا۔ بعدازاں یورپی اقوام اس کی تجارت اور بندرگاہوں پر قابض ہوگئیں۔ پھر کمیونی ازم کا دور آیا۔ اس دور میں چینی معیشت بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے شجر ممنوعہ بنی رہی۔

1980ء میں چینی حکومت نے اپنی اقتصادی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے غیرملکی سرمایہ کاروں کو چین میں سرمایہ لگانے کی اجازت دی جس کے بعد چینی معیشت نے تیزی سے ترقی کی۔ پچھلے تین عشروں کے دوران چینی معیشت کی شرح نمو دہرے ہندسوں میں رہی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران شرح نمو کم ہوکر 7.4  فی صد کی سطح پر آگئی ہے مگر مغربی ممالک کی نسبت یہ اب بھی بہتر ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق رواں برس کے دوران امریکی معیشت کی شرح نمو محض 2.2 فی صد رہے گی۔



کالم



ناکارہ اور مفلوج قوم


پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…