اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )ایک حدیث مبارکہ میں اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا اے لوگو سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور مزید فرمایا ﷺ نے اے لوگو جو بندہ زیادہ سے زیادہ لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے اللہ اس بندے سے نناوے بلائیں پریشانیاں دکھ دور فرمادیتے ہیں۔اور فرمایا ننانوے نمبر پر جو بیماری اس سے دور ہوتی ہے وہ
پریشانی و غم ہے ۔آج لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پریشانی و غم ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی پریشانیاں اور غم دور ہوں تو پھر محمد مصطفیٰ ﷺ کے اس فرمان کو یاد کرلیں اور چلتے پھرتے پڑھتے رہیں۔کوئی عبادت کے لائق نہیں صرف اللہ اللہ کو یہ لفظ بڑے پسند ہیں اسے پڑھتے رہئے اس کے پڑھنے والے کے گناہ معاف ہوتے ہیں پلڑا کل قیامت کے دن نیکیوں والا بھر جائے گا پریشانیاں دور ہوتی ہیں رزق ملتا ہے اللہ راضی ہوتا ہے زبان پاک ہوتی ہے پھر اس پاک زبان سے جو دعا مانگی جائے وہ دعا قبول ہوجاتی ہے اللہ کا خاص بندہ بن جاتا ہے جو اس ذکر کو کرتا ہے دل کو سکون ملتا ہےلیکن شرط یہ ہے کہ پڑھنے والا زیادہ سے زیادہ اور بڑے آرام آرام سے اور دل کی گہرائیوں سے پڑھے پھر دیکھے اللہ کیسے پل پل اس کے دل کو سکون عطا کرتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ۔“سب سے بہتر بات جو میں نے اور مجھ سے پہلے والے نبیوں نے کہی ہے، وہ یہ ہے: “ایک اللہ کے سواء کوئی اور معبود برحق نہیں ہے، اور نہ اللہ کا کوئی اور شریک ہے، اسی کی بادشاہت ہے، ساری بڑائی اسی کے لئے ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام جب حالتِ نزع میں تھے، اس وقت آپ نے اپنے بیٹے سے کہا: میں تمہیں “لا الہ الا اللہ ” کو مضبوطی سے
تھامے رہنے کا حکم دیتا ہوں۔کیونکہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اگر ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں، اور “لا الہ الا اللہ ” ایک دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے، تو کلمہ توحید کا پلڑا بھاری ہوجائے گا، اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایک پیچیدہ معمّہ ہوتے، تو کلمہ توحید اس کا حل ضرور پیش کردے گا۔لا الہ الا اللہ “کے مفہوم کا علم
رکھنا: اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلمہ توحید پڑھنے والا یہ جان لے کہ اس کا مفہوم کیا ہے، اور یہ کلمہ اللہ تعالی کے علاوہ ہر ایک سے خدائی کی نفی۔اور اسی کے لئے الوہیت کو ثابت کرنے کے مفہوم پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سو (اے نبی) آپ یقین کرلیں کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں۔لا الہ الا اللہ کا یہی مفہوم ہے، اور یہی
اس کی شرائط ہیں، جو اللہ تعالی کے دربار میں نجات کا سبب بنتی ہیں۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے یہ سوال کیا کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ: جو لا الہ الا اللہ کہے گا، وہ جنت میں داخل ہوجائے گا،تو امام حسن بصری نے جواباً کہا: جو شخص لا الہ الا اللہ کہے، اس کے فرائض کو بجالائے، اور اس کے حقوق کو ادا کرے، وہ
جنت میں داخل ہوجائے گا۔لا الہ الا اللہ کے صرف زبانی دعوے سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے، جب تک کہ کہنے والا شخص اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرلے، اور اس کی شرائط کی پابندی نہ کرلے۔اور جو صرف زبان سے کلمہ کا اقرار کرے، اور اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرے ، تو صرف زبانی اقرار اس وقت تک سودمند نہیں ہے، جب تک کہ وہ اپنے اقرار کو اعمال کے ساتھ مربوط نہ کرلے۔