حضرت مولانا اصغر حسین کاندھلوی کے ماموں شاہ حسین احمد منے شاہ کے نام سے مشہورتھے۔ دیکھنے میں ان کا قد چھوٹا تھا۔ لیکن اللہ رب العزت کے ہاں ان کا قد بہت بڑا تھا۔ ان کی زندگی اقتصادی لحاظ سے بہت معمولی سی تھی۔ وہ گھاس کاٹ کر بیچتے تھے اور روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے بچاتے رہتے۔ حتیٰ پورے سال میں اتنے پیسے بچ جاتے کہ وہ ایک مرتبہ دارالعلوم دیو بند کے اساتذہ کی دعوت کرتے تھے۔
اساتذہ فرماتے تھے کہ ہم سارا سال ان کی دعوت کے منتظر رہتے کیونکہ ہم جس دن ان کے گھر سے کھانا کھا لیتے اس کے بعد چالیس دن تک ہماری نماز کی حضوری میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ سبحان اللہ، اتنا حلال اور پاکیزہ مال تھا۔ مولا!۔۔۔ میرے بڑھاپے کی لاج رکھ لے عبداللہ بن مبارکؒ نے ساری زندگی حدیث پڑھائی، یہاں تک کہ ایک وقت میں چالیس چالیس ہزار شاگرد ان سے حدیث پڑھا کرتے تھے، جب وہ فوت ہونے لگے تو اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ مجھے چارپائی سے اٹھا کر زمین پر لٹا دو، نیچے نہ کوئی قالین تھا، نہ کوئی فرش تھا اور نہ کوئی سنگ مرمر لگا ہوا تھا، تاہم شاگردوں نے تعمیل حکم میں ان کو زمین پر لٹا دیا، یہ دیکھ کر طلباء کی چیخیں نکل گئیں کہ اتنے بڑے محدث اپنی داڑھی کوپکڑ کر اپنے رخسار کو زمین پر رگڑنے لگ گئے اور روتے ہوئے دعا کرنے لگے کہ اے اللہ! عبداللہ کے بڑھاپے پر رحم فرمانا، اللہ اکبر۔ جس نے ساری زندگی حدیث پڑھائی اس نے یہ نہیں کہا کہ اے اللہ! میں نے حدیث کے درس دیے میں نے لوگوں کو دین کی طرف بلایا میں نے لوگوں کو نیکی کی طرف راغب کیا کوئی عمل اس قابل نہیں سمجھا جو اللہ کے حضور پیش کر سکیں، بالآخر عاجزی کر رہے ہیں کہ اے اللہ! عبداللہ کے بڑھاپے پر رحم فرما وہ اپنے سفید بالوں کو پیش کرتے تھے کہ اے اللہ! کوئی عمل ایسا نہیں جو آپ کے سامنے پیش کر سکیں، آپ ہی مجھ پر رحم فرمائیے، ہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے کہ ہم بھی اپنے گناہوں کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کے سامنے نادم ہوں اور اس کا خوف طلب کریں تاکہ گناہوں سے بچ سکیں اس طرح مانگیں کہ جیسے ہمیں جو کچھ ملنا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی ملنا ہے، اس در سے ہٹ کر ہم جائیں گے تو ہمیں کچھ نہیں مل سکتا۔