جمعرات‬‮ ، 18 ستمبر‬‮ 2025 

میں جہاں سے گھر کا سودا وغیرہ خریدتا ہوں، اس کے باہر ایک بوڑھا موچی سڑک کے کنارے بیٹھ کر جوتے مرمت کرتاہے،جب میں نے اسے پہلی دفعہ دیکھا تو اپنی پشاوری جوتی اسے پالش کیلئے دے دی، حالانکہ۔۔۔

datetime 17  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

میں جہاں سے گھر کا سودا وغیرہ خریدتا ہوں، اس کے باہر ایک بوڑھا موچی سڑک کے کنارے بیٹھ کر جوتے مرمت کرتا ھے۔ جب میں نے اسے پہلی دفعہ دیکھا تو اپنی پشاوری جوتی اسے پالش کیلئے دے دی، حالانکہ اسے ایک دن پہلے ہی میں نے پالش کیا تھا۔ جب اس بوڑھے نے جوتی پالش

کردی تو میں نے معاوضہ پوچھا۔ اس نے 20 روپے بتایا۔ میں نے اسے 40 روپے دے دیئے جو اس نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ رکھ لئے۔ اگلی دفعہ جب دوبارہ وہاں جانا ہوا تو اتفاق سے اس دن میری جوتی کی سلائی کچھ ادھڑی ہوئی لگ رہی تھی۔ میں خود وہاں قریب دکان میں بیٹھ گیا اور وہاں سے اپنا جوتا اس بزرگ کو مرمت کیلئے بھجوا دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرا جوتا لے کر آگیا۔ میں نے معاوضہ پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ جوتا بالکل ٹھیک تھا اور مجھے صرف وہم ہوا تھا کہ وہ ادھڑا ہوا ھے۔ مجھے حیرت ضرور ہوئی لیکن میں نے شکریہ ادا کرکے جوتا پہن لیا۔ گھر آکر جب وہ جوتا اتار کر چیک کیا تو اس پر سلائی کے واضح نشان نظر آرہے تھے۔ مجھے سمجھ لگ گئی کہ اس عزت نفس سے بھرپور شخص کو اس دن میں نے جو اضافی 20 روپے دیئے تھے، آج اس نے وہ احسان اتار دیا۔ چند دن بعد میرا پھر ادھر جانا ہوا۔ اس دفعہ میں نے جوتی پالش کیلئے دی اور ایک دفعہ پھر اسے 40 روپے دے دیئے۔ اس نے ایک دفعہ پھر

ہچکچاہٹ سے 20 اضافی روپے رکھ لئے۔ آج جب میں دوبارہ اس طرف گیا تو اتفاق سے میری جوتی مٹی سے اٹی ہوئی تھی۔ میں نے اس بوڑھے شخص کو پالش کیلئے دی اور خود تھوڑا حساب کتاب میں لگ گیا۔ جب فارغ ہوا تو یاد آیا کہ میں نے جوتی پالش کیلئے دی تھی۔ لڑکے کو بھیجا کہ

وہ جوتی لادے۔ لڑکا گیا اور واپس آکر بولا کہ وہ موچی وہاں سے جاچکا تھا۔ شاید آج اسے کوئی ضروری کام تھا۔ میں نے پوچھا کہ میری جوتی کا کیا بنا؟ لڑکے نے جواب دیا کہ وہ آپ کی جوتی پالش کرکے باہر دروازے کے پاس رکھ گیا ہے۔مجھے سمجھ لگ گئی کہ اس عزت دار شخص نے

پچھلی دفعہ کے اضافی 20 روپوں کا ایک دفعہ پھر حساب چکا دیا۔ یہ ایک بوڑھے موچی کا واقعہ ھے جو شاید دن میں اتنا بھی نہیں کما پاتا کہ اپنے بچوں کیلئے ایک کلو چکن ہی خرید سکے۔ لیکن عزت نفس اور خودداری اتنی کہ کسی سے اضافی پیسے لینا گوارا نہیں، چاھے وہ اپنی خوشی

سے ہی دے دے۔ ایک ہمارے حکمران ہیں جو ہمارے خون پسینے کی کمائی سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، اپنی اولادوں کے نام پر بیرون ملک آف شور کمپنیاں بناتے ہیں، لندن، دبئی اور امریکہ میں اربوں ڈالر کی پراپرٹیز بناتے ہیں اور پھر بھی ان کی ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ان حکمرانوں سے تو وہ بزرگ موچی اچھا، جس میں کم از کم عزت نفس اور احسان مندی تو تھی!!!

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انسان بیج ہوتے ہیں


بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…