یہ ایک ایسے نوجوان شخص کی آپ بیتی ہے جسے اسلام اور مسلمان نام سے ہی بے حد چڑ تھی۔ یوراج گجرات کے ایک گاوں کے ٹھاکر زمیندار کا بیٹا ہے۔ میرا پرانا نام یوراج ہے۔ یوراج نام سے ہی لوگ مجھے جانتے ہیں۔ تاہم بعد میں پنڈتوں نے میری راشی کی خاطر میرا نام مہیش رکھا ، مگر میں یوراج نام سے ہی مشہور ہو گیا۔ لیکن اب میں سہیل صدیقی ہوں۔ میں 13 اگست 1983 کو پیدا ہوا۔ جسپال ٹھاکر کالج سے
میں بی کام کر رہا تھا کہ مجھے تعلیم چھوڑنی پڑی۔ میرا ایک بھائیاور ایک بہن ہے۔ میرے جیجا جی بڑے لیڈر ہیں۔ گجرات کے گودھرا سانحہ کے بعد 2002 کے فسادات میں ہم آٹھ دوستوں کا ایک گروپ تھا ، جس نے ان فسادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہمارے علاقے میں درندگی کا ننگا ناچ ہو رہا تھا۔ ہمارے گھر کے پاس گاو¿ں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ لوگ کہتے ہیں یہ تاریخی مسجد ہے۔ ہم لوگوں نے منصوبہ بنایا کہ گاو¿ں کی اس مسجد کو گرا دینا چاہئے۔ ہم آٹھ ساتھی اس مسجد کو گرانے کے لئے گئے۔ بہت محنت کے بعد بھی ہم اس مسجد کو گرا نہ سکے۔ ایسا لگتا تھا ہمارے کدال لوہے کے نہیں لکڑی کے ہوں۔بہت مایوس ہو کر ہم نے مسجد کے باہر والی دیوار گرانی شروع کر دی جو کچھ سال پہلے ہی گاو¿ں والوں نے بنوائی تھی۔ دیوار گرانے کے بعد ہم دوستوں نے سوچا کہ اس مسجد کو جلا دینا چاہیے۔ اس کے لئے پٹرول لایا گیا اور پرانے کپڑے میں پٹرول ڈال کر مسجد کو جلانے کے لئے ایک ساتھی نے آگ جلائی تو خود اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ خود جل کر مر گیا۔ میں تو یہ منظر دیکھ کر ڈر گیا۔ ہماری اس کوشش سے مسجد کو کچھ نقصان پہنچا۔ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ اس واقعہ کے بعد دو ہفتے کے اندر میرے چار ساتھی ایک کے بعد ایک مرتے گئے۔ ان کے سر میں درد ہوتا تھا اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتے تھے۔ میرے علاوہ باقی دو ساتھی پاگل ہو گئے۔ یہ سب دیکھ کر میں تو بہت ڈر گیا۔ میں ڈرا چھپتا پھرتا تھا۔ رات کو اسی ٹوٹی مسجد میں جا کر روتا تھا اور کہتا تھا۔
اے مسلمانوں کے خدا مجھے معاف کر دے۔ اس دوران مجھے خواب میں جہنم اور جنت نظر آنے لگے۔ میں نے ایک بار خواب میں دیکھا کہ میں جہنم میں ہوں اور وہاں کا ایک داروغہ میرے ان ساتھیوں کو جو مسجد گرانے میں میرے ساتھ تھے اپنے مسلمانوں سے سزا دلوا رہا ہے۔ سزا یہ ہے کہ طویل کانٹوں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ اس جال پر ڈال کر ان کو کھینچا جا رہا ہے جس سے گوشت اور کھال گردن سے
پیروں تک اتر جاتی ہے لیکن جسم پھر ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کو الٹا لٹکا دیا اور نیچے آگ جلا دی گئی جو منہ سے باہر اوپر کو نکل رہی ہے اور دو جلاد ہنٹر سے ان کو مار رہے ہیں۔وہ رو رہے ہیں ، چیخ رہے ہیں کہ ‘ ہمیں معاف کر دو۔ داروغہ غصہ میں کہتا ہے، معافی کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ خواب میں اس طرح کے خوفناک منظر مجھے باربار ظاہر ہوتے اور میں ڈر کے مارے پاگل سا ہونے
کو ہوتا تو مجھے جنت دکھائی دیتا۔ میں جنت میں دیکھتا کہ تالاب سے بھی چوڑی دودھ کی نہر ہے۔ دودھ بہہ رہا ہے۔ ایک نہر شہد کی ہے۔ ایک ٹھنڈے پانی کی اتنی صاف کہ اس میں میراعکس صاف نظر آرہا تھا۔ میں نے ایک بار خواب میں دیکھا کہ ایک بہت خوبصورت درخت ہے ، اتنا بڑا کہ ہزاروں لوگ اس کے سائے میں آ جائیں۔ میں خواب میں بہت اچھے باغ دیکھتا اور ہمیشہ مجھے اللہ اکبر کی تین بار آواز آتی۔
یہ سن کر مجھے اچھا نہ لگتا اور جب کبھی میں ساتھ میں اللہ اکبر نہ کہتا تو مجھے جنت سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا۔ جب میری آنکھ کھلتی تو میں بستر سے نیچے پڑا ملتا۔ اس طرح بہت دن گزر گئے۔ گجرات میں فسادات ہوتے رہے لیکن اب مجھے دل سے لگتا جیسے میں مسلمان ہوں۔ اب مجھے مسلمانوں کے قتل کی اطلاع ملتی تو دل بہت دکھتا . میں ایک دن بیجا پور گیا۔ وہاں ایک مسجد دیکھی۔ وہاں کے امام صاحب سہارنپور کے تھے۔ میں نے ان کو اپنی پوری کہانی بتائی۔ انہوں نے کہا
، اللہ کو آپ سے بہت محبت ہے ، اگر آپ سے محبت نہ ہوتا تو اپنے ساتھیوں کی طرح آپ بھی جہنم میں جل رہے ہوتے۔ خواب دیکھنے سے پہلے میں اسلام کے نام سے ہی چڑتا تھا۔ ٹھاکر کالج میں کسی مسلمان کا داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ لیکن جانے کیوں اب مجھے اسلام کی ہر بات اچھی لگنے لگی۔ بیجا پور سے میں گھر آیا اور میں نے طے کر لیا کہ اب مجھے مسلمان ہوجانا چاہیے۔ میں احمد آباد کی جامع مسجد میں گیا اور اسلام قبول کر لیا اور آج میں سہیل صدیقی کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہوں۔