اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)دین اسلام بلاشبہ فلاح اور راستی کا دین ہے جو نہ صرف کمزور، ضعیف اور مجبور کی مدد کرنے اور اسے دوبارہ معاشرے کے قابل بنانے کا درس دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کو یہ بات نہایت ہی بری لگتی ہے کہ کوئی اس کی مخلوق کو کمتر اور گھٹیا گردانے کیونکہ یہ خالق کائنات کی ہی تقسیم ہے کہ کوئی شاہ ہے اور کوئی گدا ، کسی کو تاجدار بنا دے اور کسی کو فقیر ۔
ایسا ہی ایک سبق آموز واقعہ امام جوزیؒ نے بھی بیان کرتے ہوئے مستحق اور نادار لوگو ں کی مدد کی ترغیب اور رب تعالیٰ کے اختیار کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ امام جوزیؒ بیان کرتے ہیں کہ اصفہان کا ایک بہت بڑا رئیس اپنی بیگم کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا ہوا تھا دسترخوان اللہ کی نعمتوں سے بھرا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی ’’ اللہ کے نام پر کچھ کھانے کے لیے دے دو‘‘اس شخص نے اپنی بیوی کو حکم دیا ’’ سارا دستر خوان اس فقیر کی جھولی میں ڈال دو‘‘عورت نے حکم کی تعمیل کی جس وقت اس نے اس فقیر کا چہرہ دیکھا تو دھاڑیں مارکر رونے لگی۔ اس کے شوہر نے اس سے پوچھا’’کیا ہوا ہے ؟‘‘اس نے بتلایا’’یہ شخص جوفقیر بن کر ہمارے گھر پر دستک دے رہا ہے ،چند سال پہلے اس شہر کا سب سے بڑا مالدار اور ہماری اس کوٹھی کا مالک اور میرا سابق شوہر تھا۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم دونوں دسترخوان پر ایسے ہی بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے جیسا کہ آج کھارہے تھے تواتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی کہ میں دو دن سے بھوکا ہوں اللہ کے نام پر کھانا دے دو۔ میرا شوہر دسترخوان سے اٹھا اور اس فقیر کی اس قدر پٹائی کی کہ اسے لہولہان کردیا۔ نہ جانے اس فقیر نے کیا بد دعا دی کہ میرے شوہر کے حالات دگرگوں ہو گئے، کاروبار ٹھپ ہوگیا اور وہ فقیر و قلاش ہوگیا۔ اس نے مجھے بھی طلاق دے دی۔ اس کے چند سال گذرنے کے بعد میں آپ کی زوجیت
میں آگئی‘‘شوہر بیوی کی یہ باتیں سن کر کہنے لگا’’اے میری شریک حیات کیا میں آپ کو اس سے زیادہ تعجب خیز بات نہ بتلاوں؟‘‘اس نے کہا’’ ضرور بتائیں!‘‘کہنے لگا ’’جس فقیر کی آپ کے سابق شوہر نے پٹائی کی تھی وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ میں ہی وہ فقیر تھا ۔