اگر آپ ماں ہیں،بہن ہیں یا ٹیچر ہیِں تو اپنا کردار ادا کریں، ہماری بچیوں کو ہماری رہنمائی کی ضرورت ہے انھیں سمجھائیں کہ باہر دوپٹے کو پھیلا کر رکھیں۔ جسم کو جتنا زیادہ چھپا کر باہر نکلا جائے اچھا ہے جس معاشرے میں گوشت خور درندے پائے جاتے ہوں وہاں بچیوں کے لباس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے،
بہت سی مائیں اپنی بچیوں کو چست ٹراؤزر تنگ پاجامے پہنا دیتی ہیں کہ بچی تو ہے کیا ہوتا ہے، کاش انہیں وہ آنکھیں کچھ دیر دیکھنے کو مل جائیں جو ہوس پرستوں کے چہرے پر لگی ہیں تو کبھی پھر بچیوں کو نہ تو ایسا لباس پہنائیں نہ یہ کہیں کہ ’’بچی ہے کچھ نہیں ہوتا‘‘ کچھ نہیں ہوتا ہوتا کرتے بہت کچھ ہوجاتا ہے، آج کل کی مائیں کسی بھی بات پر کہہ دیتی ہیں کہ ’’ کیا ہوا بچی تو ہے‘‘ بچی آدھی آستینیں پہن کر باہر گھوم رہی ہے، ’’کیا ہوا بچی تو ہے‘‘ دوپٹہ کیوں نہیں لیا ہوا اور ہے تو سر پر کیوں نہیں، ’’کیا ہوا بچی تو ہے‘‘۔ کزن کے ساتھ بائیک پر بٹھا دیا یا اکیلے کہیں بھیج دیا، ’’کیا ہوا بچی تو ہے‘‘، شادی میں ڈانس کرلیا، کیا ہوا بچی تو ہے‘‘۔ ایک بات ذہن میں بٹھا لیں کہ مرد لڑکی کی عمر نکاح کرنے کے لیے دیکھتا ہے زنا اور زیادتی کرنے کے لیے نہیں، اس لیے اس جملے کو کہیں دفن کردیں کہ ’’کیا ہوا بچی تو ہے‘‘ کیونکہ تربیت بچی کی ہی کرنی ہے اور تربیت کے لیے اس سوچ کو ختم کرنا لازمی ہے کہ ’’کیا ہوا بچی تو ہے‘‘ اگر آپ کو میری باتوں سے اتفاق ہے تو یہ تحریر شیئر کریں تاکہ یہ تحریر ان ماؤں تک پہنچ جائے جو ایسا بولتی اور کرتی ہیں۔
اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ لائیک اور شیئر کریں