بدھ‬‮ ، 14 مئی‬‮‬‮ 2025 

دکاندار اور بچی

datetime 5  فروری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کچھ دن پہلے کسی کام سے ایک قریبی محلے میں میرا جانا ہوا، دوپہر کا وقت تھا، گرمی عروج پر تھی۔ گلی میں جنرل سٹور ٹائپ دکان دیکھی تو سوچا سٹنگ پی کر دماغی توازن ٹھنڈا کیا جائے، میں نے بائیک روکی اور دکاندار جس کی عمر پچاس کے قریب تھی، سے یخ سٹنگ طلب کی اور لے کر دکان کے باہر شیڈ کے نیچے سائیڈ پر کھڑا ہوکے خود کو بوسٹ آپ کرنے لگا۔

اتنے میں ایک پیاری سی بچی جو کہ جسمانی خدوخال سے بلوغت کی حدوں کو چھو رہی تھی مگر چہرے کی معصومیت اور انداز و اطوار سے میرے اندازے کے مطابق 10 سال سے زائد عمر کی نہ تھی، دکان پر آئی اور بظاہر کرخت نظر آنے والے دکاندار سے 1.5 لیٹر کوک دینے کو کہا، ساتھ ہی وہ فرنٹ ڈیسک پر پڑی ٹافیوں، نمکو، سلانٹی وغیرہ میں سے بھی چیزیں چننے لگی۔ دکاندار نہایت شفقت اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچی کو چیزوں کے ریٹ بھی بتانے لگا اور بچی کے ساتھ خوش گپیاں بھی کرنے لگاکیونکہ میری اپنی کوئی بہن نہیں تو مجھے اس طرح کی معصوم بچیاں بہت پیاری لگتی ہیں اور حسرت ہوتی ہے کہ میری بھی ایک ایسی بہن ہوتی لہذا میں اس کو نوٹس کرنے لگا۔ خیر میں دکان کے باہر سائیڈ پر اس اینگل سے کھڑا تھا کہ دکاندار مجھے نہیں دیکھ سکتا تھا جبکہ دکاندار اور بچی مجھے صا ف نظر آرہے تھے، اسی اثنا دکاندار نے خوش گپیاں کرتے کرتے بچی کے گال پر ہاتھ لگایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بچی کے اُبھرتے نسوانی نقوش پر چٹکی کاٹ لی، بچی اس کی اس حرکت پر ہونٹ بھینچ کر شرمانے لجانے لگی اور ٹماٹر کی طرح سرخ ہو کر سکڑنے سمٹنے لگی اور جلدی جلدی چیزیں لے کر بھاگ گئی، ممکن ہے ایسا پہلی بار ہوا ہو اس کے ساتھ یا قریبی دکان پر آنے کے باعث ایسا روز ہوتا ہو اس کے ساتھ مگر میرے مشاہدے کے مطابق بچی کا اس کی اس حرکت پر خفا نہ ہونا اور بس ناسمجھی میں شرمانا صاف ظاہر کر رہا تھا کہ دکاندار موصوف پہلے بھی بچی کو ہراساں کرتا رہتا ہوگا۔

بہرحال میں اس صورتحال پر کشمکش میں تھا کہ کیا ایکشن لوں، اسے لعن طعن کروں، لوگوں کو جمع کروں مگر چونکہ میں اس محلے میں اجنبی تھا اس لیے خاموشی اختیار کر لی مبادا کہ محلے کے اس شریف دکاندار کو بے قصور سمجھ کر لوگ مجھے ہی جھوٹے الزام میں نہ دھر لیں۔ میں نے چبھتی نگاہوں سے اسے بوتل کے پیسے ادا کیے اور وہاں سے روانہ ہوگیا۔ بس اس واقعے نے مجھے ایک نئی تحریک دی، معاشرتی و اخلاقی مسائل سے وابستہ کیسوں کی تو میں خود سے تلاش میں رہتا ہوں۔

بس پھر کیا تھا، گرمی اور مصروفیت کی پروا نہ کرتے ہوئے میں نے اگلے تین روز میں اپنا محدود سا شہر چھان مارا، حتیٰ المقدور ہر محلے کی ہر ایک گلی کا وزٹ کیا۔ جہاں گلی میں دکان نظر آتی اور وہاں چھوٹی بچیاں بھی موجود ہوتیں تو وہاں رک کر بہانے سے کوئی چیز لیتا یا دکاندار کی نفسیات کو پرکھ کر مزید مشاہدے کے لیے بوتل بھی پی لیتا، جسے ختم کرنے میں مجھے 15 منٹ ضرور لگتے پھر ڈائری میں دکان کا نام اور لوکیش نوٹ کرتا اور آگے نکل جاتا، یوں اس ریسرچ آپریشن کے تین دنوں میں،

میں نے 28 بوتلیں پیں اور 70 عدد شاہی میوے، تلسیاں، ہیوٹ والی ٹافیاں بھی جمع کیں مگر اس سے حاصل ہونے والا مشاہدہ میرے لیے کسی خزانے سے کم نہ تھا۔ دوستو! زیادہ تر مسجدوں کے امام اور سکول ٹیچر ہی چھوٹے بچے اور بچیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں مشہور ہیں مگر کیا آپ نے اپنے گلی محلے کے دکانداروں پر بھی کبھی غور کیا؟ ان کی عمر پر مت جائیے گا، دکان چلانے والے نوجوان لڑکوں سے لے کر عمر رسیدہ بوڑھوں تک کی حرکتوں کا جائزہ لیا؟ مگر میں نے لیا، 232 دکانوں کے مشاہدے کے بعد صرف 78 دکانداروں کو میں نے چھوٹے بچے بچیوں کی حد تک ٹھیک پایا جبکہ بقیہ 154 دکانداروں کی حرکتیں چھوٹی بچیوں کے ساتھ ذومعنی اور بے مطلب، بے مقصد مذاق پر مشتمل تھیں جبکہ ان کے ساتھ ہاتھ کا مذاق اور انھیں ٹچ کرنا بھی معمول کی بات تھی۔

ایک دکاندار اگر ایک باپ کے سامنے بھی اس کی چھوٹی بچی کے گال پر ہاتھ پھیرے تو باپ کو بہت اچھا لگے گا کہ شریف انسان میری بچی سے بہت انسیت رکھتا ہے مگر میں اپنی ریسرچ کے مطابق اس کے پیچھے چھپی شیطانیت کو پرکھ سکتا ہوں۔ ان دکانداروں میں کچھ ہمارے اپنے اور کچھ غیر ہوتے ہیں، غیر تو ایک طرف مگر زیادہ تر اپنے ہی چھوٹی رشتہ دار بچیوں پر جنسی نگاہ رکھتے ہیں، بچیاں ان سے مانوس بھی ہوتی ہیں اور کسی کو کچھ بتاتی بھی نہیں۔ لہذا میں اپنی ریسرچ کو اپنے شہر میں کس طرح قانونی کارروائی میں استعمال کروں گا، یہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن میرا فرض تھا کہ آپ کو بھی اس میں شریک کرکے باور کرا دوں کہ بہ حیثیت والدین آپ کو کیسے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنا ہے۔ آپ سب سمجھ دار ہیں، ایسی برائیوں کی روک تھام کے طریقے بھی آپ کو بخوبی پتا ہیں، بس اب عمل کرنے کا وقت ہے اور اگر آنکھیں بند رکھیں تو یقین کیجئے ہمیں ہماری پریوں جیسی بیٹیوں کی لاشیں کوڑے کے ڈھیر پر روز ملتی رہیں گی۔ (تحریر: سید یاسر بخاری ایڈووکیٹ)

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



27ستمبر 2025ء


پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…

محترم چور صاحب عیش کرو

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…