پاکستان بننے سے قبل کراچی شہر میں ایک سڑک ہوتی تھی‘ سٹاف لائینز۔ یہ کراچی کی مہنگی اور خوبصورت ترین روڈ تھی‘ سٹاف لائینز پر برطانوی فوج کے اعلیٰ افسروں کے سرکاری گھر تھے‘ اس سڑک پر 1865ء میں دس ہزار دو سو 14 مربع گز کا ایک خوبصورت بنگلہ بنایا گیا‘ یہ بنگلہ اس دور کے مشہور آرکیٹیکٹ موسس سوماکی نے ڈیزائن کیا تھا‘ یہ بنگلہ بعد ازاں فلیگ سٹاف ہاؤس کہلایا اور سندھ کے جنرل کمانڈنگ آفیسر کی
سرکاری رہائش گاہ بنا‘فلیگ سٹاف ہاؤس میں جنرل ڈگلس گریسی جیسے لوگ بھی رہائش پذیر رہے‘ یہ اُس وقت بریگیڈیئر کمانڈر تھے‘ یہ بنگلہ بعد ازاں مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتا رہا یہاں تک کہ یہ 1940ء میں کراچی کے مشہور بزنس مین سہراب کاؤس جی کی ملکیت ہو گیا‘ سہراب کاؤس جی پارسی تھے اور یہ اپنے دور کے بزنس ٹائیکون تھے‘ کاؤس جی نے 1942ء میں یہ بنگلہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا‘ کراچی کے پراپرٹی ڈیلرز نے گاہکوں کو بنگلہ دکھانا شروع کیا‘ بنگلہ مہنگا بھی تھا اور بڑا بھی۔ گاہک ملنا مشکل تھا‘ قائداعظم 1943ء میں کراچی آئے‘ قیام پاکستان کی تحریک اس وقت تک آخری فیز میں داخل ہو چکی تھی‘ قائداعظم جانتے تھے پاکستان چند برسوں میں بن جائے گا اور کراچی نئے ملک کا دارالحکومت ہو گا‘ قائداعظم کراچی میں اپنی رہائش کیلئے جگہ تلاش کر رہے تھے‘ کراچی کے ایک وکیل نے قائداعظم کو فلیگ سٹاف ہاؤس دکھایا‘ قائد کو یہ عمارت پہلی نظر میں پسند آ گئی‘ آپ نے سہراب کاؤس جی سے ملاقات کی اور بنگلہ خرید لیا‘ فلیگ سٹاف ہاؤس 1944ء میں قائداعظم کے نام منتقل ہو گیا‘ قائداعظم کے پاس اس وقت بمبئی اور دہلی میں شاندار رہائش گاہیں تھیں‘ کراچی کی رہائش گاہ بھی دہلی اور بمبئی کے گھروں کی طرح شاندار اور خوبصورت تھی‘
قائداعظم اگست 1947ء میں کراچی شفٹ ہو گئے‘ آپ نے بمبئی اور دہلی کے گھروں سے اپنا سامان منگوا لیا‘ یہ سامان فلیگ سٹاف ہاؤس میں لگا دیا گیا‘ قائداعظم زیادہ مدت کیلئے گورنر جنرل نہیں رہنا چاہے تھے‘ وہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد فلیگ سٹاف ہاؤس میں شفٹ ہونا چاہتے تھے لیکن قدرت نے آپ کو ریٹائر ہونے اور فلیگ سٹاف ہاؤس میں شفٹ ہونے کی مہلت نہ دی‘ قائداعظم 11 ستمبر 1948ء کو انتقال کر گئے‘
فاطمہ جناح قائداعظم کے انتقال تک پاکستان کی خاتون اول اور مادر ملت تھیں‘ یہ قائداعظم کے ساتھ گورنر جنرل ہاؤس میں رہتی تھیں‘ قائداعظم کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنا دیئے گئے‘محترمہ فاطمہ جناح نے گورنر جنرل ہاؤس خالی کیا اور وہ فلیگ سٹاف ہاؤس میں شفٹ ہو گئیں‘ آپ کے شفٹ ہونے کے بعد حکومت نے سٹاف لائینز کا نام فاطمہ جناح روڈ رکھ دیا‘
محترمہ فاطمہ جناح اپنے انتقال9 جولائی 1967ء تک اسی عمارت میں رہائش پذیر رہیں‘ لوگ آپ سے ملاقات کیلئے روز یہاں آتے تھے‘ ملک میں 7 اکتوبر 1958ء کو پہلا مارشل لاء لگا‘ آئین توڑ دیا گیا اور جنرل ایوب خان کو ملک کا صدر بنا دیا گیا‘ فاطمہ جناح کیونکہ عملی سیاست سے الگ ہو چکی تھیں چنانچہ وہ خاموش رہیں‘ ایوب خان نے 1964ء میں صدارتی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا‘ ملک میں اس وقت پانچ اپوزیشن جماعتیں تھیں‘
یہ جماعتیں ایوب خان کے مقابلے کیلئے صدارتی امیدوار تلاش کر رہی تھیں‘ جماعتوں نے طویل غور و غوض کے بعد فیصلہ کیا یہ محترمہ فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان کے خلاف متفقہ امیدوار بنائیں گی‘ فیصلے کے بعد اپوزیشن کی پانچوں جماعتوں کے سربراہ فلیگ سٹاف ہاؤس پہنچے‘ محترمہ فاطمہ جناح سے ملاقات کی اور اس وقت تک وہاں بیٹھے رہے
جب تک مادر ملت نے ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان نہیں کر دیا۔فاطمہ جناح کا الیکشن لڑنے کا اعلان ملکی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ تھا‘ یہ ملک کا پہلا واقعہ تھا جب حکومت نے ریاستی مشینری کو سیاست کے تنور میں جھونک دیا‘ ایوب خان نے الیکشن جیتنے کیلئے جہاں ہر قسم کی دھاندلی کروائی وہاں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی کردار کشی اور اثاثوں کی پڑتال بھی شروع کرا دی‘
ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ایوب خان کے چہیتے وزیر اور منہ بولے بیٹے تھے‘ بھٹو صاحب نے ملتان کے جلسے میں محترمہ پر ایسا گھناؤنا الزام لگایا کہ مؤرخین نے اس الزام کو لکھنے تک کی جرأت نہ کی‘ صدر ایوب خان کی ہدایت پر کراچی کی انتظامیہ نے اس دور میں محترمہ فاطمہ جناح کو مختلف قسم کے نوٹس دینا شروع کر دیئے‘ان نوٹس میں پراپرٹی ٹیکس کے نوٹس بھی تھے‘ انکم ٹیکس کے نوٹس بھی تھے
اور جائیداد کی تفصیل بتانے کے نوٹس بھی تھے‘ کراچی کی انتظامیہ نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے کے جرم میں فاطمہ جناح کے نام فلیگ سٹاف ہاؤس کے پانی اور سیوریج کے بقایا جات بھی نکال دیئے‘ فاطمہ جناح اپنے بل مقررہ وقت پر جمع کرواتی رہی تھیں لیکن میونسپل کمیٹی نے اس کے باوجود بقایا جات کا نوٹس بھجوا دیا‘ حکومت شاید بقایا جات کی بنیاد پر محترمہ کو الیکشن سے ’’ڈس کوالی فائی‘‘ کرنا چاہتی تھی‘
محترمہ نے ادا شدہ بلوں کی تفصیل میونسپل کمیٹی کو بھجوا دی‘ محکمہ خاموش ہو گیا مگر مقدمہ بند نہیں ہوا‘ یہ کیس سرکاری فائلوں میں چلتا رہا‘ ایوب خان الیکشن جیت گئے‘ محترمہ فاطمہ جناح ہار گئیں‘ یہ اسی فلیگ سٹاف ہاؤس میں 9 جولائی 1967ء کو انتقال فرما گئیں‘ پاکستان میں اس دور میں قائداعظم کی پراپرٹی کا کوئی وارث نہیں تھا چنانچہ فلیگ سٹاف ہاؤس ٹرسٹ کی تحویل میں چلا گیا‘ 1980ء کی دہائی آئی‘
کراچی میں پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا‘ قبضہ مافیا سرگرم ہو گیا‘ فلیگ سٹاف ہاؤس انتہائی مہنگی اور کمرشل جگہ پر واقع تھا‘ قبضہ گروپوں نے قائداعظم کی رہائش گاہ پر قبضے کی کوششیں شروع کر دیں‘ محمد خان جونیجو ان کوششوں سے واقف تھے‘ یہ 24 مارچ 1985ء کو وزیراعظم بنے تو انہوں نے فوری طور پر فلیگ سٹاف ہاؤس کوٹرسٹ سے خریدا اور اسے قائداعظم میوزیم بنا دیا
اور یوں 1865ء کا فلیگ سٹاف ہاؤس قائداعظم کے استعمال کی ذاتی اشیاء کا عجائب گھر بن گیا‘ یہ گھر 1985ء سے وفاقی حکومت کی تحویل میں ہے لیکن محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف پانی اور سیوریج کے بقایاجات آج تک قائم ہیں‘ محترمہ کے خلاف ایوب خان دور میں قائم کردہ مقدمہ ختم نہیں ہوا‘ آپ اس کیس کا آخری ٹرننگ پوائنٹ ملاحظہ کیجئے‘ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے مارچ‘اپریل 2014ء میں ڈیفالٹرز کو حتمی نوٹس جاری کئے‘
بورڈ نے وصولیوں کی اس مہم کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نوٹس جاری کر دیا‘ محترمہ کو نوٹس میں حکم دیا گیا‘ آپ کے ذمے پانی اور سیوریج کے دو لاکھ 63 ہزار 774 روپے واجب الادا ہیں‘ آپ کو ہدایت کی جاتی ہے آپ یہ رقم 28 مئی تک جمع کروادیں ورنہ دوسری صورت میں آپ کی رہائش گاہ آر۔ اے 241 (یعنی فلیگ سٹاف ہاؤس) کے پانی اور سیوریج کے کنکشن بھی کاٹ دیے جائیں گے
‘آپ کو لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت سزا بھی ہو سکتی ہے اور اس سزا میں آپ کی جائیداد قرقی‘ آپ کی جائیداد کی نیلامی اور بھاری جرمانہ شامل ہے‘ نوٹس پر محترمہ فاطمہ جناح کا صارف نمبر0 A060039000 درج ہے محترمہ فاطمہ جناح کو یہ نوٹس ان کے انتقال کے 47 سال بعد جاری ہوا ‘یہ نوٹس ہماری سرکاری کارکردگی کا تازہ ترین شاہکار ہے۔میں اس نوٹس پر حکومت‘ بیوروکریسی اور ملک کے بیوروکریٹک
سسٹم کی سرزنش نہیں کرنا چاہتا‘ میں اس نظام میں موجود دو خامیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں‘ ہمارے ملک میں پیدائش اور انتقال کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے جبکہ پوری دنیا اسے سنجیدہ سمجھتی ہے‘ آپ نیویارک جائیے‘ نیویارک میں ایلس آئی لینڈ ہے‘ امریکی مجسمہ آزادی اسی جزیرے کے ایک کونے میں نصب ہے‘ ایلس آئی لینڈ میں امریکا آنے والے مہاجرین سے متعلق ایک میوزیم قائم ہے‘
آپ کواس عجائب گھر میں مہاجرین کا پورا ڈیٹا بیس ملتا ہے‘ آپ اگر امریکی ہیں توآپ کمپیوٹر میں اپنا‘ اپنی والدہ اور اپنے والد کا نام ٹائپ کریں آپ کو کمپیوٹر فوراً بتا دے گا آپ کے آباؤ اجداد کس سن میں کس ملک سے امریکا آئے تھے اور آپ کے کون کون سے رشتے دار امریکا کے کس کس حصے میں رہتے ہیں؟دنیا کے ہر ملک میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو سرکاری سسٹم میں اس کا نام درج کیا جاتا ہے
اور یہ بچہ جہاں بھی جاتا ہے سرکاری سسٹم اس کا پیچھا کرتا ہے لیکن ہمارے ملک میں آج بھی ایک تہائی بچوں کا اندراج نہیں ہوتا‘ ہم لوگ اسی طرح ’’ڈیتھ سر ٹیفکیٹ‘‘ لینا یا انتقال کا اندراج کروانا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں‘ میرا خیال ہے ہم اگر قائد اعظم‘ لیاقت علی خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو یا میاں محمدشریف کے بارے میں بھی تحقیقات کریں تو یہ بھی سرکار کی کسی نہ کسی فائل میں زندہ نکل آئیں گے‘
میری حکومت سے درخواست ہے یہ 2014ء میں یہ قانون بنا دے‘ یکم جنوری 2015ء سے ملک میں جو بچہ پیدا ہو گا ہر صورت اس کا اندراج ہو گا اور پاکستان کا جو شہری انتقال کرے گا سرکاری کاغذوں میں وہ نہ صرف فوت شدہ لکھا جائے گا بلکہ اس کے قبرستان اور قبر کا حدوداربعہ بھی درج کیا جائے گا‘یہ کام نادرا کرے گا اور دوم ہمارے ملک میں مقدمات کی ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ نہیں ‘
سرکاری محکموں کی فائلیں پچاس پچاس سال چلتی رہتی ہیں‘ یہ محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے 47 سال بعد بھی نوٹس جاری کر دیتے ہیں‘ یہ وقت اور وسائل دونوں کا ضیاں ہے‘ حکومت اس سال سے تمام سرکاری نوٹس‘ کیسز‘ درخواستوں اور مقدمات کی ’’ ایکسپائری ڈیٹ‘‘ طے کردے‘ سرکاری محکموں اور عدالتوں کو پانچ سال دے دیے جائیں یہ اگر پانچ برسوں میں فیصلہ نہیں کرتے تو فائل خود بخود بند ہو جائے گی اور ملزم یورپ کی طرح محکمے پر مقدمہ کر سکے گا یہ فیصلہ محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات کی روحوں کو سکون بخشے گا ورنہ دوسری صورت میں ہمارے محکمے کسی دن حضرت نوح علیہ السلام کو بھی پانی کا بل بھجوا دیں گے۔