ایک دن خلیفہ معتضد باللہ ایک مکان میں جو ان کے لئے تعمیر کیا جا رہا تھا بیٹھے ہوئے کاریگروں کو دیکھ رہے تھے۔ ان میں ایک سیاہ رنگ بدصورت نوجوان کو دیکھا جو بہت مسخرہ تھا۔ سیڑھیوں پر دو دو درجے پھلانگ رہا تھا اور دوسرے مزدوروں سے دوگنا بوجھ بھی اٹھاتا تھا اس کو دیکھ کر خلیفہ کے دل میں شبہ پیدا ہوا اس کو بلایا گیا اور اس کا سبب دریافت کیا تو اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔ خلیفہ نے ابن حمدون سے کہا جو وہاں موجود تھے
اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟انہوں نے کہا کہ یہ کون ہے؟ یعنی ایک بے حقیقت شخص ہے کہ آپ ایسے شخص کی سوچ میں پڑ گئے۔ شاید ایسا ہو کہ یہ کنبہ نہ رکھتا ہو اور مصارف کی فکر سے اس کا دل خالی ہو۔ خلیفہ نے کہا، افسوس ہے (تو کچھ نہ سمجھا) میں نے اس نوجوان کے بارے میں جواندازہ کیا ہے میں اس کو غلط نہیں سمجھتا یا تو کہیں سے بغیر محنت اس کو کچھ دینار ہاتھ آ گئے یا یہ چور ہے اور مٹی گارے کے کام سے اپنا راز پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے۔ ابن حمدون نے خلیفہ سے اس باب میں اختلاف کیا۔خلیفہ نے کہا کہ اس سیاہ شخص کو ہمارے سامنے لاؤ تو وہ حاضر کیا گیا اور کوڑے مارنے والے کو بلایا گیا اور حکم دیا کہ اس کے کوڑے لگائے جائیں۔ جب اس کے تقریباً ایک سو کوڑے لگ چکے اور خلیفہ نے قسم کھائی کہ اگر اس نے سچ نہ بیان کیا تو اس کی گردن مار دی جائے گی اور تلوار اور چمڑے کا فرش بھی منگا لیا گیا تو اس وقت وہ سیاہ رنگ شخص بولا کہ مجھے امن دے دیجئے (تو میں سچی بات کہہ دوں) خلیفہ نے کہا امان دی جاتی ہے بجز اس صورت کے جس میں حد واجب ہو۔ آخری الفاظ کو وہ سمجھا نہیں اور اس نے خیال کیا کہ اب میں محفوظ ہو چکا تو اس نے اپنا حال بیان کیا کہ میں برسوں سے اینٹوں کے بھٹہ پر کام کرتاتھا
چند مہینے گزرے کہ میں وہاں بیٹھا ہوا تھا ایک شخص میرے پاس سے گزرا۔ اس کی کمر میں ایک ہمیانی بندھی ہوئی تھی۔ میں اس کے پیچھے لگ گیا۔ اس نے ایک بھٹی کے قریب ہمیانی کھولی اور اس میں سے ایک دینار نکلا۔ اس کو میرے پیچھے کھڑے ہونے کی کچھ خبر نہ تھی۔میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دیناروں ہی سے بھری ہوئی ہے تو میں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس کے ہاتھ جکڑ ڈالے اور اس کا منہ بند کر دیا
اور ہمیانی چھین لی اور اس کو کندھے پر اٹھا کر لے گیا اور بھٹہ کے گڑھے میں ڈال کر مٹی سے بھر دیا۔ چند دنوں کے بعد اس کی ہڈیاں نکال کر دریائے دجلہ میں پھینک آیا۔ دینار میرے پاس موجود ہیں جن سے میرے دل کو تقویت پہنچتی ہے۔ معتضد باللہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ اس کے مکان سے دینار نکال لائے (چنانچہ معہ ہمیانی لائے گئے) ہمیانی پر اس مقتول مالک کا نام مع ولدیت لکھا
ہوا مل گیا تو شہر میں اس نام کی منادی کرا دی گئی تو ایک عورت حاضر ہوئی (جس کے ساتھ ایک بچہ تھا) اس نے کہا کہ یہ میرے شوہر کا نام ہے اور یہ اسی کا بچہ ہے جو مجھ سے پیدا ہوا تھا۔ فلاں وقت وہ گھر سے نکلا تھا اور اس کے ساتھ ایک ہمیانی تھی جس میں ایک ہزار دینار تھے وہ اب تک غائب ہے۔ تو خلیفہ نے وہ سب دینار اس کے سپرد کر دیئے اور اس کو عدت گزارنے کا حکمدیا اور اس کالے شخص کی گردن مار دی گئی اور حکم دیا کہ اس کی لاش وہیں بھٹی میں ڈال دی جائے