اتوار‬‮ ، 22 دسمبر‬‮ 2024 

قیدی بادشاہ اورشاہی چاول

datetime 19  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کسی مُلک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ اپنی رعایا میں ہر دل عزیز تھا۔اُس کے ملک کا ہر خاص وعام اُس سے خوش تھا۔اُس کا وزیر بھی اچھا تھا۔بادشاہ روز صُبح اللہ کا نام لے کر اُٹھتا اور اپنی عوام کی بھلائی کے کامو میں لگ جاتا۔زندگی یونہی گُزر رہی تھی کہ کسی دُشمن مُلک نے حملہ کر دیا۔بدقسمتی سے بادشاہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بادشاہ کو قید میں ڈال دیا گیا۔آہستہ آہستہ حالات پھر سے معمول پر آنے لگے۔

آنے والا نیا بادشاہ بھی رعایا کا دل جیتنے میں لگ گیا۔زندگی پھر سے رواں دواں ہو گئی۔مگر یہاں قیدی بادشاہ اپنے شب و روز یہ سوچنے میں لگانے لگا کہ آخر اُس سے کہاں ایسے کوئی غلطی یاں گُناہ ہوا ہے جس کی سزا مل رہی ہے۔بادشاہ قید خآنے میں بھی اللہ کا شُکر ادا کر رہا تھا۔اُس کا کھانا بھی وقت پر پُہنچ جاتا تھا۔لیکن جب دُوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا تو اُس کو شاہی چاولوں کی خُوشبو آنے لگتی۔وہ سوچتا شاید آج اُس کے لیئے شاہی کھانا آنے والا ہے مگر کھانا آتا تو وہی قیدیوں والا۔وہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ آخر یہ خُوشبو کہاں سے آتی ہے۔بادشاہ کو قید میں اب آٹھ ماہ ہونے کو تھے۔ایک دن بادشاہ کوصُبح کا کھانا نہ دیا گیااور دوپہر کا کھانا بھی اُس کے مقررہ وقت پر نہ پُہنچا۔اب بادشاہ کو بھوک ستانے لگی کہ اچانک اُس کو وہی شاہی چاولوں کی خُوشبو آنے لگی۔اُس نے اپنے قیدخانے میں موجود روشن دان سے آواز لگائی کہ اگر کوئی اللہ کا بندا اُس طرف ہے تو مُجھ کو کھانے کو کچھ دے میں بھوکا ہوں۔قیدخانے کے باہر ایک آدمی تھا۔اُس نے کپڑے کے اندر کچھ کھانا باندھ کر روشن دان سے اندر پھینک دیا۔جب بادشاہ نے کپڑا کھولا تو اُس کو تعاجب ہوا کہ یہ تو وہی شاہی چاول ہیں جس کی خُوشبو روز اُس کو آتی تھی۔بادشاہ نے فورا پوچھا کہ آپ کون ہیں?

دیوار کے اُس پار سے آواز آئی کے میں اک فقیر ہوں اور روز بھیک مانگنے کے لیئے یہیں بیٹھتا ہوں۔یہ سن کر بادشاہ کو مزید حیرانگی ہوئی کیونکہ شاہی چاول ایک فقیر کے پاس کیونکر ہوسکتے ہیں?بادشاہ نے اپنے سوال کو فقیر کے سامنے رکھا۔فقیر نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ اس وقت جس دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اُس دیوار سے ایک نالی نکل رہی ہے جو کی محل کے شاہی باورچی خانے سے ہے۔وہ روز صُبح جب یہاں آتا ہے

تو وہ اس نالی کے آگے ایک کپڑا باندھ دیتاہے جس کی وجہ سے بہہ کر آنے والا کھانا اور چاول اس کپڑے میں رہ جاتا ہے اور پانی آگے چلا جاتا ہے۔پھر وہ اس کھانے کو گھر لے جاتا ہے۔اس میں سے چاول الگ کر کے اُن کو دھوتا ہے اور چاولوں کو سُکھا کر جمع کر لیتا ہے۔اور اس ہی طرح سے اُس نے کافی چاول جمع کر رکھے ہیں۔مگر اب وہ یہ کھانا اور جمع نہیں کر پارہا۔کیونکہ یہ کھانا تو اُس نے پہلے حُکمران کی حکومت میں جمع کیا تھا۔

اُس فقیر نے نہایت افسوس کے ساتھ بتایا کہ شاید اب کا بادشاہ اپنے ملازمین کو کھانا پھیکنے نہیں دیتا ہوگا۔یہ سُنتے ہی بادشاہ سمجھ گیا کہ آخراُس کو کس گُناہ کی سزا ملی ہے۔فقیر جب اپنی بات کہہ چُکا تو اُس نے بادشاہ سے پوچھاکہ وہ کون ہے اور قیدخانے میں کیونکر ہے?بادشاہ نے آشک بار ہوکر اس کا جواب دیا کہ وہ ایک بدنصیب بادشاہ تھا اور وہ اس وقت اپنے اللہ کی نعمت کو ضائع کرنے کی سزا کاٹ رہا ہے۔

اللہ کی نعمت صرف اناج ہی نہیں ہے بلکہ ہر وہ ہلال چیز ہے جس کے استعمال سےہم کو سکون فراہمہوتاہےہوا،پانی،مکان،کپڑا،پٹرول،گیس اور بجلی یہ سب ہمارے اللہ کی نعمتیں ہیں۔جو چیز آپ کے قابل استعمال نہ ہو آپ اُس کو اپنے کسی ضرورت مند بھائی بہن کو دے دیں۔جیسا کے آپ لوگ جانتے ہو کہ آج کل پاکستان بُہت سی مُشکلات میں ہے جس میں پانی کا اور بجلی کا بُحران سہرفرست ہیں کہیں یہ مُشکلات بھی تو ہمارے کسی کُفران نعمت کا ہی تو نتیجہ نہیں?

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…