یونان کی گولڈن ڈان پارٹی کی ویب سائٹ پر نیلی ساڑھی میں ملبوس ایک ہندو خاتون کی تصویر ہوناحیران کن بات ہے، تصویر میں خاتون جرمنی کے آمر ایڈولف ہٹلر کے مجسمے کو دیکھتی نظر آ رہی ہیں۔گولڈن ڈان یونان کی ایک نسل پرست پارٹی ہے جو یونان سے غیر ملکیوں کو بے دخل کر رہی ہے لیکن ایک ہندو عورت کی تصویر اس پارٹی کی ویب سائٹ پر کیوں ہے اور ہٹلر کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ یہ سوال میرے دماغ میں گردش کرنے لگا۔
دماغ پر تھوڑا زور ڈالا تو اس عورت کا نام آسانی سے یاد آیا یہ ‘ساوتری دیوی’ ہے۔ ساوتری دیوی نے اپنی کتاب ‘دی لائٹننگ اینڈ دی سن’ میں جرمنی کے آمر ایڈولف ہٹلر کو وشنو کا اوتارقرار دیا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ قوم پرست سوشلزم دوبارہ ابھرے گا۔امریکہ اور یورپ میں دائیں بازو کی قوتیں آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہیں، اس کے ساتھ ہی ساوتری دیوی کا نام بھی موضوعِ بحث ہے۔ امریکہ کے بائیں بازو کے رہنما رچرڈ سپینسر اور سٹیو بینن ساوتری دیوی کے کام کو دوبارہ منظرِ عام پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر ساوتری دیوی کے نام اور لباس کو نظر انداز کر دیا جائے تو وہ مکمل طور پر یورپی عورت تھیں۔ وہ سنہ 1905 میں فرانس کے لیون شہر میں پیدا ہوئی تھیں۔ ساوتری دیوی کی ماں برطانوی تھیں جبکہ والد یونانی-اطالوی تھے۔ابتدا میں ساوتری دیوی نے سماج وادی خیالات کو مسترد کیا اور سنہ 1978 میں ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا: ‘ایک بدصورت لڑکی کبھی خوبصورت لڑکی کے برابر نہیں ہو سکتی۔’وہ پہلی جنگِ عظیم کے اختتام کے بعد سنہ 1923 میں ایتھنز پہنچ گئیں۔ انھوں نے مغربی اتحاد پر یونان کی توہین کرنے کا الزام عائد کیا۔ ساوتری دیوی کا خیال تھا کہ یونان اور جرمنی مظلوم ممالک تھے۔
یہودیوں کے خلاف ہٹلر کی ظالمانہ کارروائیاں ساوتری دیوی کے نزدیک ‘آرین نسل’ کو بچانے کا قدم تھا۔ انھوں نے ہٹلر کو اپنا رہنما یا گائیڈ بنا لیا تھا۔سنہ 1930 کے آغاز میں ساوتری دیوی یورپ کی بت پرست تاریخ کی تلاش میں ہندوستان آئیں۔ ان کا خیال تھا کہ انڈیا میں ذات پات کے نظام کی وجہ سے دوسری ذاتوں میں شادیاں نہیں ہوتیں اور یہاں انھیں خالص ‘آریہ نسل’ کے لوگ ملیں گے۔
ساوتری نے ہندوستانی زبانیں سیکھیں اور یہاں ایک برہمن شخص سے شادی بھی کی جسے وہ اپنی ہی طرح ‘آرین’ کہتی تھیں۔ساوتری دیوی کا کہنا تھا کہ ہٹلر زمانے کی رفتار کے برعکس چلنے والا انسان ہے۔ جو ایک دن دنیا سے برائیاں ختم کر دے گا اور ‘آریوں کی حکمرانی کا سنہرا دور’ شروع ہوگا۔
اسی دوران ساوتری نے کولکتہ میں ہندو قوم پرستی کے فروغ کے لیے بھی کام کیا۔ جب انگریزوں نے ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کو بگاڑنے کی کوشش کی تو اس سے ہندوتوا کی تحریک کو بھی جلا ملی۔ اس تحریک میں یہ کہا گیا کہ ہندو ہی آریوں کے حقیقی وارث ہیں اور ہندوستان ایک ہندو ملک ہے۔ساوتری نے اس تحریک کے بانی سوامی ستیانند کے ساتھ کام کیا۔ سوامی ستیانند نے ساوتری دیوی کو یہ اجازت دی کہ وہ ہندو تحریک کے ساتھ فاشزم کی باتیں شامل کر سکتی ہیں۔
ساوتری نے ملک کے بہت سے حصوں کا دورہ کیا۔ وہ لوگوں سے بنگالی اور ہندی زبان میں باتیں کرتی اور آریوں کی اہمیت ان پر واضح کرتی تھیں۔سنہ 1945 میں جرمنی میں نازیوں کے خاتمے کے بعد ساوتری دیوی یورپ پہنچیں اور سنہ 1948 میں وہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔
وہاں انھوں نے نازی جرمنی کے کئی پرچے تقسیم کیے اور نعرے لگائے کہ ‘ایک دن ہم دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے اور جیت جائیں گے۔’
ساوتری کی شادی اور اپنے شوہر کے ساتھ ان کے تعلقات کو شبے کی نظر سے دیکھا گیا. بہت سے لوگ اسِت مکھرجی کے ساتھ ان کی شادی کی بات کو نہیں مانتے۔ ان کا خیال ہے کہ دونوں کی ذات مختلف تھی۔اپنی زندگی کے آخری سالوں میں ساوتری انڈیا واپس آ گئی تھیں۔ وہ ہندوستان کو ہی اپنا گھر سمجھتی تھیں وہ دہلی میں ایک فلیٹ میں رہنے لگیں، پاس پڑوس کی بلیوں کو کھانا کھلاتی تھیں اور اکثر شادی شدہ ہندو عورتوں کی طرح سونے کے زیورات پہنا کرتی تھیں۔سنہ 1982 میں انگلینڈ میں اپنے ایک دوست کے گھر وہ انتقال کر گئيں۔آج انڈیا میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت ہے۔ اس پارٹی کا بنیادی نظریہ بھی ہندوتوا کے اصولوں پر مبنی کہا جاتا ہے۔آج شاید ہی کوئی ایسا ملے جو ساوتری دیوی کو جانتا ہو لیکن انڈیا میں ہندو قوم پرست نظریے کو پھیلانے میں انھوں نے بہت اہم کردار نبھایا تھا۔