مولانا روم سے کسی نے پوچھا کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ مولانا روم نے فرمایا، دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل کی طرف جاتا ہے اس نے دیکھا کہ اس کے پیچھے شیر آ رہا ہے وہ بھاگا جب تھک گیا تو دیکھا کہ سامنے ایک گڑھا ہے، اس نے چاہا کہ گڑھے میں چھلانگ لگا کر جان بچائے لیکن گڑھے میں ایک خوفناک سانپ نظر آیا اب آگے سانپ اور پیچھے شیرکا خوف اتنے میں ایک درخت کی شاخ نظر آئی وہ درخت پر چڑھ گیا
مگر بعد میں معلوم ہوا کہ درخت کی جڑ کو کالا چوہا کاٹ رہا ہے وہ بہت خائف ہوا کہ تھوڑی دیر میں درخت کی جڑ کٹے گی پھر گر پڑوں گا پھر شیرکا لقمہ بننے میں دیر نہیں۔ اتفاق سے اسے ایک شہد کا چھتہ نظر آیا۔ وہ اس شہد شیریں کو پینے میں اتنا مشغول ہوا کہ نہ ڈر رہا سانپ کا اور نہ شیر کا۔ اتنے میں درخت کی جڑ کٹ گئی وہ نیچے گر پڑا۔ شیر نے اسے چیر پھاڑ کر گڑھے میں گرا دیا اور وہ سانپ کی خوراک بن گیا۔ جنگل سے مراد یہ دنیا، شیر سے مراد یہ موت ہے جو انسان کے پیچھے لگی رہتی ہے،گڑھا قبر ہے، چوہا دن اور رات ہیں، درخت عمر ہے اور شہد دنیائے فانی سے غافل کر دینے والی لذت ہے۔ انسان دنیا کی لذت میں اعمال بد اور موت وغیرہ بھول جاتا ہے اور پھر اچانک موت آجاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک دن ایک چور کو راستے میں ایک بٹوہ ملا جس میں بہت سے پیسے تھے۔ اُس بٹوے پر کوئی دعا لکھی ھوئی تھی اور ایک خانے میں بٹوے کے مالک کا نام اور پتہ بھی رکھا ہوا تھا۔ چور نے وہ بٹوہ سالم اُس کے مالک کے حوالے کر دیا۔ اُس شخص نے چور سے پوچھا کہ تم آرام سے یہ پیسے رکھ سکتے تھے واپس کیسے کر دیے؟ چور نے جواب دیا ’’آپ نے بٹوے پر جو دعا لکھوائی ھے اِس عقیدے پر لکھوائی ہو گی کہ اگر یہ کھو جائے تو اِس دعا کی برکت سے آپ کو واپس مل جائے۔ میں چور ضرور ہوں لیکن صرف مال و دولت کا۔ کسی کا عقیدہ چوری نہیں کر سکتا۔ اگر میں آپ کا بٹوہ واپس نہ کرتا اور آپ کا اعتقاد اِس دعا پر کمزور پڑ جاتا تو تب میں آپ کے ایمان کا چور ہوتا اور یہ مال و دولت کی چوری سے ہزار گُنا بڑا گناہ ہے۔‘‘