حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جس طرح جبرائیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں میں امتیازی شان عطا فرمائی ہے اس طرح بایزید بسطامی کو اللہ رب العزت نے اولیاء میں امتیازی شان عطا فرمائی ہے اور یہ بات کرنے والے بھی جنید بغدادی ہیں۔ یہی بایزید بسطانی جب بچپن میں یتیم ہو گئے ماں نے ان کو مدرسہ میں داخل کر دیا‘
قاری صاحب سے کہا کہ بچہ کو اپنے پاس رکھنا‘زیادہ گھر آنے کی عادت نہ پڑے ایسا نہ ہو کہ یہ علم سے محروم ہو جائے‘ چنانچہ یہ کئی دن قاری صاحب کے پاس رہے‘ ایک دن اداس ہوئے دل چاہا کہ امی سے مل آؤں‘ قاری صاحب سے اجازت مانگی‘ انہوں نے شرط لگا دی تم اتنا سبق یاد کر کے سناؤ تب اجازت ملے گی‘ سبق بھی بہت زیادہ بتا دیا مگر بچہ ذہین تھا اس نے جلدی سے وہ سبق یاد کر کے سنا دیا۔ اجازت مل گئی یہ اپنے گھر واپس آئے‘ دروازے پر آ کر دستک دی‘ ماں وضو کر رہی تھی وہ پہچان گئی میرے بیٹے کی طرح دستک معلوم ہوتی ہے چنانچہ دروازے کے قریب آکر پوچھا۔ کس نے دروازے کو کھٹکھٹایا؟ جواب دیا بایزید ہوں تو ماں کہتی ہے ایک میرا بھی بایزید تھا میں نے اسے اللہ کیلئے وقف کر دیا‘ مدرسہ میں ڈال دیا تو کون بایزید ہے؟ جو کھڑا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے تو جب انہوں نے یہ الفاظ سنے سمجھ گئے امی چاہتی ہیں میرا دروازہ نہ کھٹکھٹائے۔ اب بایزید مدرسہ میں اللہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور اسی سے تعلق استوار کرے چنانچہ واپس آئے اور مدرسہ میں رہے اس وقت نکلے جب عالم با عمل بن چکے تھے اور اللہ نے ان کو بایزید بنا دیا تھا۔