جب حضورﷺ نے ہجرت کی تو آپؐ اونٹ پر سوار تھے اور ابوبکر آپؐ کے ردیف (پیچھے بیٹھے ہوئے تھے) یعنی ساتھی اور ابوبکر راستہ کو پہچانتے تھے کیونکہ ان کی آمدورفت شام کی طرف ہوتی رہتی تھی۔ راستہ میں جب کسی قوم پر گزر ہوتا تھا اور وہ ان سے پوچھتے تھے کہ اے ابوبکر! یہ آپ کے آگے کون ہیں؟ تو یہ جواب دیتے تھے کہ ہادی جو میری رہنمائی کرتے ہیں۔ (ہادی کے معنی راستہ بتانے والے کے بھی ہیں اور ہدایت کرنے والے کے بھی چونکہ کفار آپؐ کی تلاش میں تھے اس لئے ان سے راز افشا بھی نہ ہوا اور صداقت بھی قائم رہی)
حضرت حسنؓ سے مروی ہے کہ جب حضورﷺ اور ابوبکرؓ غار سے نکل کر مدینہ کو روانہ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ کو جو جاننے والا بھی ان سے ملا اس نے ان سے پوچھا کہ اے ابوبکر یہ کون ہیں تو آپ یہی جواب دیتے رہے کہ یہ مجھے راستہ بتانے والے ہیں اور واللہ ابوبکرؓ نے سچ بولا۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں سے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ چاہے دنیا میں رہے اور چاہے اللہ کی ان نعمتوں میں داخل ہو جو اس کے پاس ہیں تو اس بندے نے اللہ کے نزدیک رہنے کو پسند کر لیا۔ یہ سن کر ابوبکرؓ رو پڑے۔ ہم کو ان کے رونے سے تعجب ہوا کہ رسول اللہﷺ نے خبر دی کہ اللہ نے کسی بندے کو ایسا اختیار عطا فرمایا تھا (یہ سن کر ابوبکرؓ کیوں روئے) پھر معلوم ہو گیا کہ خود رسول اللہﷺ ہی وہ بندے تھے جن کو اختیار دیا تھا اور ابوبکرؓ ہم سے زیادہ رمزشناس تھے۔