دہشت گردوں نے ایک بار پھر کوئٹہ کو سوگ کی اندھیری رات میں دھکیل دیا‘ کل رات تین دہشت گرد کچی دیوار پھلانگ کر پولیس ٹریننگ کالج میں داخل ہوئے اور پولیس کے 62 زیر تربیت جوانوں کو شہید کر دیا‘ 120 شدید زخمی ہیں‘ یہ کوئٹہ کے سریاب روڈ پر10ماہ میں دہشت گردی کی 11 ویں اور بلوچستان میں 10 ماہ میں 40ویں واردات ہے‘ ۔۔ان 40 واقعات میں اب تک 232 لوگ شہید اور 350 زخمی ہو چکے ہیں‘ یہ وارداتیں کیا ثابت کرتی ہیں‘ یہ وارداتیں چار حقائق ثابت کرتی ہیں‘ ایک‘ ہمارے دشمن پاکستان کو تباہ کرنے کےلئے سیریس ہیں لیکن ہم پاکستان کو بچانے کےلئے بالکل سیریس نہیں ہیں‘ دو‘ 18 ستمبر کو اڑی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہوا‘ ۔۔اس واقعے سے 41 دن پہلے 8 اگست کو کوئٹہ کے وکلاءپر حملہ ہوا جس میں چورانوے لوگ شہید ہوگئے‘ تین اکتوبر کو افغانستان کے شہر ہلمند کے پولیس بیس پر حملہ ہوا
اس واقعے کے 22 دن بعد کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ ہو گیا‘ کیا یہ صرف ”کو انسی ڈینٹ“ ہے یا پھر ہمیں مان لینا چاہیے ہمارے دونوں ہمسائے اپنی نالائقیوں کا بدلہ ہم سے لیتے ہیں‘ تین‘ دہشت گرد اب چھوٹے چھوٹے حملوں کی بجائے بڑے حملے ڈیزائین کرتے ہیں‘پہلے دس حملوں میں بیس لوگ مرتے تھے‘ اب دہشت گردی کی ہر واردات میں سو پچاس لوگ شہید ہوتے ہیں‘ یہ لوگ (ان) محکموں کو بھی ٹارگٹ کرتے ہیں جو عوام کی سیکورٹی کے ۔۔ذمہ دار ہیں‘ اس کا مقصدخوف پھیلانا اور عوام کے دل میں یہ شک پیدا کرنا ہے کہ جو ادارے اپنی حفاظت نہیں کر سکتے وہ عوام کی حفاظت کیا کریںگے اور چار‘ صوبائی دارالحکومت کے پولیس ٹریننگ کالج کی دیواریں کچی تھیں‘ صرف ایک سیکورٹی گارڈ تھا‘ کوئی مورچہ‘ کوئی چھپنے کی جگہ نہیں تھی‘ کوئی سائرن نہیں تھا اور کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں تھا‘ یہ (اس) قوم کے پولیس کالج کی حالت ہے جو 15 سال سے دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی ہے‘ کیا یہ صورتحال ہماری غیر سنجیدگی کا ثبوت نہیں‘ رہی سہی کسر آج وزیر داخلہ چودھری نثار کے بیان نے پوری کر دی، یہ ہے اداروں اور قوم کی صورتحال اور ہم اگر ۔۔اس صورتحال میں لاشیں نہیں اٹھائیں گے تو کیا (پھول) چنیں گے‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے۔کیا میں غلط کہہ رہا ہوں۔