کہتے ہیں فرہاد نے اپنی’’ محبت ‘‘ شیریں کو پانے کے لئے پہاڑ کاٹ کر نہر رواں کر دی تھی‘ اس بات کا تو کوئی ثبوت ابھی تک نہیں ملا کہ نیو میکسیکو میں واقع خوبصورت لا پلانٹا کی وادی میں کوئی فرہاد رہتا تھا یا نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ منیجر گیل ڈیوس کی سرپرستی میں پہاڑ کو کاٹ کر ہوٹل ضرور بنایا گیا اور اس ہوٹل میں روزانہ درجنوں لوگ چھٹیوں کا مزا دوبالا کرنے آتے ہیں۔ یہ ہوٹل ایک غار میں قائم کیا گیا اور یہ اُجو آلامو کے پہاڑ میں واقع ہے ‘ داخلی راستہ ایک سخت چٹان کو کاٹ کر اس طرح بنایا گیا کہ بظاہر کسی عظیم سنگ تراش کا کارنامہ دکھائی دیتاہے۔ اگر ہوٹل کے داخلی دروازے سے باہر کا نظارہ کیا جائے تو لا پلانٹا کا ٹھاٹھیں مارتا دریا آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے تو ایریزونا‘ نیو میکسیکو‘ یوتھا اور کولاراڈو کی ریاستیں تاریکی کو روشنیوں میں ڈبو دیتی ہیں۔
سنگل روم
سنگل روم قالین سے مزین ہے جس میں 4 افراد آسانی رہ سکتے ہیں‘ کمرے میں صوفہ کم بیڈ‘ ٹی وی‘ڈی وی ڈی‘ وی سی آر کے علاوہ روزانہ استعمال کی چیزیں بھی بآسانی میسر ہیں۔ اگر سیاح سنگل روم اپنے لئے بک کرواتے ہیں تو انہیں ایچ ڈی ٹی وی‘ مفت وائی فائی‘ منی بار‘ کار پارکنگ‘ ناشتا‘ 24گھنٹے سروس‘ کافی اور فون بھی مفت مہیا کیا جاتا ہے۔
غار کو انسانی ہاتھوں نے بنایا ہے جس میں انتھک محنت کے نقوش واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ یہ غار 1981ء میں نامور جیالوجسٹ بروس بلیک کی ملکیت تھا جو اسے اپنے آفس کے طور پر استعمال کرتا تھا مگر جب یہ آفس نہ بن سکا تو اس نے غار کو رہنے کے کمرے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔غار جواَب ایک ہوٹل ہے
جوایک ہزار 6سو 50اسکوائر فٹ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ ہوٹل میں کمرے اس طرح بنائے گئے ہیں کہ جب ان کو خوبصورت فرنیچر اور دیدہ زیب روشنیوں سے مزین کیا گیا تویہ کسی فائیو سٹار ہوٹل کا نقشہ پیش کرنے لگا۔ ہوٹل کو جس طرح سے ہاتھوں سے تراش کر بنایا گیا ہے اسی طرح ہوٹل میں سجاوٹی اشیاء اور استعمال ہونے والی اشیاء بھی ہاتھوں سے ہی بنائی گئی ہیں ۔ ہوٹل کے ہر کمرے کے ساتھ صحن بھی ہے جس میں سیاح خوش گپیاں لگاتے ہیں۔
ہوٹل میں بیڈ روم‘ امریکی کیوا‘ ڈائنگ روم‘ کچن‘ باتھ روم اور لیونگ روم بھی ہے جبکہ باتھ روم میں شاور کے علاوہ جاکوزی ٹب بھی نصب ہیں جس میں گرم پانی سے باتھ بھی لیا جا سکتا ہے ۔ ہوٹل میں دو دالان بھی ہیں ‘ ایک مرکزی راستے کی طرف جاتا ہے اور دوسرا مرکزی بیڈ روم سے جڑا ہے ۔
مزید پڑھئے:بھارتی انتہاپسند پھر آگ بگولا
غار کا درجہ حرارت 68ڈگری سے 73ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔ ہوٹل میں پہنچنے کے لئے کوئی سیڑیاں نہیں ہیں اس لئے سیاح بیک پیک لے کر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ہوٹل ہے جس میں سیاحوں کو اپنے ساتھ پالتو جانور وں کو بھی لانے کی اجازت نہیں ہوتی اور ساتھ ہی تمباکو نوشی کی اجازت بھی نہیں ہے ۔
باورچی خانہ
اگر بندہ کسی ہوٹل میں کمرہ بُک کروائے اور وہاں کھانا بنانے کے لئے اچھا باورچی خانہ ہو تو پھر تفریح کا مزہ کرکرہ ہو جاتا ہے۔ باورچی خانے میں آون‘ چولہا‘ ریفریجریٹر اچھا کھانا بنانے کے لئے ضروری سامان دستیاب ہے۔ بار بی کیو کے شوقین افراد کے لئے گِرل بھی ہے۔ یوں ان سہولیات کی وجہ سے سیاح بے چینی سے ہوٹل کا رخ کرتے ہیں اور اپنی
چھٹیوں کو انجوائے کرتے ہیں۔
ایک نیو میکسیکو ہے جہاں لوگو ں کو ہوٹل میں تمباکو نوشی تک کی اجازت نہیں اور دوسری طرف پاکستان اور اس کی سیاحت ہے جودہشتگردی کی وجہ سے دم توڑ رہی ہے۔ ایک طرف ملک کے گلی کوچے خون سے رنگین ہیں دوسری طرف ہوٹلز اور موٹلزکو بھی دہشتگردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہاں میریٹ جیسے ہوٹل کو بھی دہشت کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے‘ غیر ملکی سیاحوں کو نانگا پربت پر قتل کر دیاگیا اور آج تک کوئی قاتل نہیں پکڑا گیا۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقع وادیاں کسی جنت سے کم نہیں مگر امن و امان کی صورت حال اچھی نہ ہونے کی وجہ سے سیاح تو دور کی بات ہے پاکستانی عوام بھی شمالی علاقہ جات کا رخ کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان جہاں سوات‘ مالم جبہ‘ گلگت‘ کشمیر‘ سیف الملوک‘ کیلاش کی وادی کے علاوہ نجانے کتنی ہی خوبصورت جگہیں ہیں امن و مان نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اس طرف قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ امن و امان کو قائم کرے تاکہ سیاح ان خوبصورت علاقوں کو دیکھ سکیں اور اپنے فارغ اوقات کو انجوائے کر سکیں۔ میکسیکو کی طرح دنیا غاروں تک میں سیاحوں کو لے جانے میں کامیاب ہو چکی ہے اور ہماری جنت نظیر وادیاں دہشت گردی کی وجہ سے جہنم کا منظر پیش کر رہی ہیں۔