اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ اسپیکر آرٹیکل 5 کا حوالہ بھی دے تو تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں کرسکتا، کوشش ہے کیس کا جلد ازجلد فیصلہ کریں،تمام سیاسی جماعتوں کا احترام ہے ، ہوا میں فیصلے نہیں دے سکتے۔ پیر کو تحریک عدم اعتمادپر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے معاملے پر سپریم کورٹ کے
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ۔بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان روسٹرم پر پہنچے اور کہا کہ عدالت میں دو باتیں کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ عدالت کے 21 مارچ کے حکم کی جانب توجہ مبذول کرونا چاہتا ہوں، 21 مارچ کو سپریم کورٹ بار کی درخواست پر دو رکنی بینچ نے حکمنامہ جاری کیا تھا، گزشتہ روز پارٹی کی ہدایات نہیں لی تھی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم پہلے درخواست گزاروں کو سننا چاہتے ہیں اور اگر آپ کوئی بیان دینا چاہتے ہیں تو دے دیں۔بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2022 کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی، کسی رکن اسمبلی کو آنے سے نہیں روکا جائیگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مناسب فیصلہ دیں گے اور سیاسی بیانات نہیں بلکہ صرف اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیں گے۔بابراعوان نے کہا کہ ہم رولنگ سمیت ایک رٹ پیش کرنے کیلئے تیار ہیں اور چیئرمین عمران خان کا پیغام ہے کہ ہم الیکشن میں جانے کیلئے تیار ہیں۔چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سیاسی بات کر رہے ہیں، ہم دیکھیں گے اسپیکر کی رولنگ کی کیا قانونی حیثیت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مناسب حکمنامہ جاری کریں گے اور قومی اسمبلی کی کارروائی کا جائزہ لیں گے۔دوران سماعت مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عدالت پر بوجھ نہیں بننا چاہتے لہٰذا باقی وکلا میری معاونت کریں گے۔اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی استدعا ہے کہ فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے اور ایسا بینچ بنایا جائے جس میں تمام جج صاحبان شامل ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بینچ کو آئینی و قانونی نکات سے آگاہ کریں،
ہم پھر جائزہ لیں گے کہ فل کورٹ بنانا چاہیے یا نہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر آپ کو پانچ ججز پر اعتراض ہے تو ہمیں بتائیں ہم چلے جاتے ہیں جس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ہمیں عدالت پر اعتماد ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو بینچ میں کسی پر عدم اعتماد ہے تو بتایا جائے، کسی جج پر عدم اعتماد کرنے سے بینچ اٹھ جائے گا۔اپوزیشن جماعتوں کے وکیل نے کہا کہ مجھے بینچ کے کسی رکن پر عدم اعتماد نہیں لیکن عدم اعتماد کی تحریک پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ بینچ کی تشکیل سے دیگر مقدمات کی سماعت میں خلل پڑتا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ اسپیکرکو تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے 14روز میں اجلاس بلانا تھا، تحریک جمع ہونے کے بعد 20 تاریخ تک اسپیکر نے اجلاس نہ بلانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔فاروق نائیک کے دلائل پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو اسپیکر کے اقدام سے متعلق ہے،
آپ بتائیں کے اسپیکر نے صحیح کیا یا غلط؟۔جسٹس منیب نے ریمارکس دئیے کہ 100 ارکان اسمبلی ہیں، 25 کہتے ہیں تحریک پیش کی جائے، 50 حق میں نہیں تو کیا تحریک مسترد نہیں ہوجائے گی؟ ۔فاروق نائیک نے کہا کہ اکثریت کہے کہ تحریک پیش نہ ہو تو نہیں ہوسکتی، اسپیکر کے بجائے ہاؤس تحریک پیش ہونے کی اجازت دیتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حکومت اکثریت میں ہے اور تحریک پیش ہونے کیخلاف ووٹ دے تو کبھی کوئی تحریک پیش نہیں ہوسکے گی،
کیا اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے؟ اسپیکر تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوتا ہے؟۔جسٹس اعجاز نے کہا کہ جب لیو گرانٹ نہ ہو تب تک عدم اعتماد کی تحریک نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے سوال کیاکہ لیو کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اسپیکرکی طرف سے لیوگرانٹ کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اسمبلی کی کارروائی میں ہے کہ اسپیکر قرارداد مسترد کرسکتا ہے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے؟
رولز میں تو ووٹنگ سے پہلے بحث کرانا ضروری تھا، رولز کے مطابق تین دن بحث ہونا تھی، بحث کرائے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے؟فاروق نائیک نے کہا کہ ووٹنگ سے پہلے بحث کرانیکا مطالبہ کیا گیا لیکن اسپیکر نے اجازت نہیں دی، بلاول بھٹو نے اسپیکر کو کھڑے ہوکر درخواست بھی کی۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ بحث کرانے کی اجازت نا دینا تو پھر پروسیجرل ڈیفکیٹ ہوا۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ پڑھ کر سنادی، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر نے رولنگ کس رول کے تحت دی؟ عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کی رولنگ کس رول کے تحت دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکررول 28 کے تحت اسپیکر کا اختیار استعمال کرتے ہوئے رولنگ دے سکتاہے؟فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اسمبلی کے رولز 28 کے تحت اسپیکر ہی رولنگ دے سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کون سے رول کے تحت دی گئی؟بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر نے اسپیکر کا وہ اختیار استعمال کیا جو ڈپٹی اسپیکر کا اختیار نہیں تھا، کیا ڈپٹی اسپیکر رول 28 کے تحت رولنگ دے سکتا ہے یا صرف اسپیکر کا اختیار ہے؟ اسپیکرکے اختیارات مختلف ہیں توپھرسپریم کورٹ کے دائرہ کارکا سوال اٹھے گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رول 28 کے تحت رولنگ اسپیکر خود دے سکتا ہے کوئی اور نہیں، آئین کے تحت ڈپٹی اسپیکر صرف اجلاس کی صدارت کرسکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا تحریک عدم اعتمادپربحث میں اسپیکرتحریک کیغیرقانونی ہونے کی رولنگ دے سکتاہے؟فاروق نائیک نے کہا کہ اسپیکر کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ تحریک عدم اعتماد غیر قانونی قرار دے۔عدالت نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ پروسیجرل خلاف ورزی ہے یا آئینی خلاف ورزی ؟ اس پر فارق نائیک نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئینی خلاف ورزی ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سے مقام پر اسپیکر تحریک کے قانونی یاغیر قانونی ہونے پر رولنگ دے سکتاہے؟ اسپیکرکے پاس کیاکوئی اختیارات نہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد مسترد کرسکے؟ اسپیکر آرٹیکل 5 کاحوالہ بھی دے تو تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں کرسکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 69 میں اسپیکر کو کس حد تک آئینی تحفظ حاصل ہے؟ آپ سے زیادہ ہم جلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔فاروق نائیک نے کہا کہ صدر نے عبوری حکومت کے قیام تک عمران خان کو قائم مقام وزیراعظم مقرر کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری حکومت کے قیام سے قبل فیصلہ کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے ججز سے مشاورت کرکے کارروائی (آج) منگل تک ملتوی کر دی،، سماعت بارہ بجے شروع ہوگی ۔