اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر صحافی ، کالم نگار اور اینکر پرسن سلیم صافی اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ پارٹی بلاشبہ عمران خان کی ہے۔ وہ اس جماعت کے بانی اور بادشاہ ہیں۔ سب کچھ ان کی ذات کے گرد گھوم رہا ہے۔ اب عملاً اس پارٹی کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ منشور۔ واحد تقاضا عمران خان کی وفاداری اور ان کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کرنا ہے۔
ان معیارات پر فیصل جاوید، شہباز گل اور شبلی فراز وغیرہ پورا اترتے ہیں، چنانچہ وہ ساتھ ہیں اور جو لوگ اکبر ایس بابر، جاوید ہاشمی، ندیم افضل چن اوراحمد جواد وغیرہ کی طرح تنقید کی ہمت رکھتے تھے، وہ ساتھ چھوڑ گئے۔ اب بس عمران خان اور ان کے نورتن حکمران ہیں یا پھر محمود خان اور عثمان بزدار جیسے لوگ، جن کی سفارش مضبوط ہے۔آگے جاکر سلیم صافی لکھتے ہیں کہ تماشہ یہ ہے کہ اب ناراض لوگوں کو منانے کا کام پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی کو دیا گیا جو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن یہ کام نہیں کرسکتے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ خود پرویز خٹک کو گزشتہ ساڑھے تین سال میں بری طرح بے توقیر کیا گیا۔ وزارت اعلیٰ ان کا حق تھا لیکن ان کی بجائے مراد سعید کی سفارش پر محمود خان کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔مرکز میں انہیں کھڈے لائن وزارت دی گئی اور پرنسپل سیکرٹری، جو ان کے شدید ترین مخالف ہیں، کے ذریعے ان کو ہر طریقے سے تنگ کیا جاتا رہا۔ جہاں تک شاہ محمود قریشی ہیں تو وہ اس وقت پی ٹی آئی کے اندر سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخصیت ہیں جب کہ خود عمران خان بھی انہیں پسند نہیں کرتے۔ گویا ناراض لوگوں سے باقی ناراض لوگوں کو راضی کرنے کا کام لیا جارہا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ یہ بیل کیسے منڈھے چڑھے گی؟