اسلام آباد(آن لائن ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ا جلاس میں وزارت خزانہ کے کئی مسودہ قوانین پر غور کیا گیا اجلاس میں سرکاری کمپنیوں کی گورننس اور آپریشنز بل 2021 پر غور ہوا اراکین کمیٹی نے بل پر تحفظات کا اظہار کردیا اراکین کمیٹی نے پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں میں اضافہ کو حکومت کی نااہلی قرار دیدیا ممبر کمیٹی عائشہ غوث پاشا نے سوال اٹھایا کہ
سرکاری کمپنیوں کی اکثریت نقصان میں ہیں کیا ان کی نجکاری کی جائیگی حکومت کے اس مسودہ قانون کا کیا مقصد ہے ان کمپنیوں کے نقصانات کتنے ہیں سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ یہ آئی ایم ایف کی ہدایات پر یہ قانون لایا جا رہا ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس فیض اللہ کاموکہ کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔ وزارت خزانہ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت کا سینٹرل مانیٹرنگ کا نظام صرف کمپنیوں کی پرفارمنس پر چیک کرے گاکمپنیاں خود اپنے اہداف مقرر کریں گے اور لائن منسٹری سے بھی اپنے سالانہ پروگرام پر مشاورت کریں گی سیکرٹری خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کمپنیوں کے بورڈ مکمل خود مختار ہوں گے وزارت خزانہ کا ان کمپنیوں کو چلانے میں کوئی کردار نہیں ہو گاصرف پبلک فنانس کے باعث وزارت خزانہ اس عمل میں شامل ہوئی ہے ممبر کمیٹی حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ میرا تجربہ ہے کہ خود مختار بورڈ کا صرف دعویٰ ہوتا ہے جس پر عمل ماضی میں کبھی نہیں ہواعوام کا پیسہ ہے بتائیں کہ یہ سرکاری کمپنیاں سالانہ کتنا نقصان کر رہی ہیں ان کمپنیوں کی سال میں دو دفعہ رپورٹ تیار کرنا بہت مشکل ہو گاان کمپنیوں کے کتنے کے مستقل چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر ہیں یہ کمپنیاں اتنی زیادہ ہیں کہ وزارت خزانہ ان کو خود سے ان کی مانیٹرنگ نہیں کر سکتی جس پر وزارت خزانہ حکام کا کہنا تھا کہ ہم کمپنیوں کو چلائیں گے نہیں صرف انکے لئے معیارات مقرر کریں گے
ان میں دو سو کمپنیاں ہیں جن کو 20 وزارتیں چلاتی ہیں وزارت خزانہ 6 سال سے ان کمپنیوں کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے 2019 2018 میں ان کمپنیوں نے 145 ارب روپے کا نقصان کیا ہے زیادہ نقصان ڈسکوز، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل اور نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کرتی ہیں زیادہ منافع او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کماتی ہیں سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ حکومت گردشی قرض کو کم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے ڈسکوز کے بورڈ میں غیر متعلقہ افراد کو تعینات کیا جاتا ہے بورڈ بھی وزارت کے احکامات کو ربر اسٹیپ کرتا ہے نیا طریقہ کار بھی بہتری نہیں لائے گا۔