کابل(این این آئی)افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دعوی کیا ہے کہ طالبان بین الاقوامی سطح پر اپنی حکومت تسلیم کروانے کے بہت قریب پہنچے ہیں لیکن نئی افغان حکومت کی جانب سے کوئی بھی رعایت ان کے شرائط پر ہوگی۔غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اوسلو میں مغربی طاقتوں سے مذاکرات کر کے واپس وطن لوٹنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں
افغان وزیر خارجہ امیرخان متقی نے امریکا سے افغانستان کے اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ بھی دہرایا تاکہ انسانی بحران ختم کرنے میں مدد مل سکے۔امیر خان متقی نے بتایا کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کو آہستہ آہستہ بین الاقوامی سطح پر قبول کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو تسلیم کروانے کے مرحلے میں ہم اپنے مقاصد کے قریب تر پہنچ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا حق ہے، افغان شہریوں کا حق ہے اور جب تک ہم اپنا حق حاصل نہیں کرلیتے اس وقت تک ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔امیر متقی نے اصرار کیا کہ ان کی حکومت فعال انداز میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ رابطے میں ہے، جس سے قبولیت کے بڑھتے ہوئے مواقعوں کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری ہم سے بات کرنا چاہتی ہے اور اس معاملے میں ہم نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔امیر متقی کا کہنا تھا کہ متعدد ممالک کابل میں اپنے سفارت خانے چلا رہے ہیں، جس سے حکومت تسلیم کیے جانے کی توقعات مزید بڑھی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ یہاں یورپی اور عرب ممالک کے سفارت خانے بھی کھلیں گے۔افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ انسانی حقوق جیسے شعبوں میں بین الاقوامی دبا کے بجائے طالبان کی شرائط پر رعایت دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ اپنے ملک میں کر رہے ہیں، وہ نہ ہی ان شرائط پر پورا اترنے کے لیے کیا جارہا ہے اور نہ کسی کے دبا کے تحت کیا جارہا ہے۔
امیر متقی نے کہا کہ ہم یہ سب اپنے منصوبوں اور پالیسیوں کے مطابق کر رہے ہیں۔امیر خان متقی نے اصرار کیا کہ نئی حکومت نے سابق امریکی حمایت یافتہ حکومت کے ملازمین کو برطرف نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کے 5 لاکھ خواتین اور مرد ملازمین میں سے کسی کو بھی ملازمت سے نہیں ہٹایا گیا، تمام ملازمین کو
تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔تاہم کابل اور ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کا کہنا ہے کہ ان کی ملازمت ختم ہوچکی ہے یا انہیں تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔افغان وزیر خارجہ نے خواتین کے احتجاج، ناقدین کو حراست میں لینے اور طالبان حکومت کے خلاف ریلیوں کی کوریج کرنے پر صحافیوں پر تشدد کی خبریں مسترد کردیں۔