کراچی (آن لائن) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کو تیل 85 روپے فی لیٹر سے 91 روپے فی لیٹر تک پڑ رہا ہے اور اس پر اب بھی پچیس روپے فی لیٹر تک کمائے جا رہے ہیں۔ حکومت چاہے تو مہنگائی کم کرنے کے لئے
پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس کم کر سکتی ہے جو اس وقت ملکی تاریخ میں مہنگی ترین قیمت پر فروخت کی جا رہی ہیں۔ اعلیٰ حکام جن ملکوں میں پٹرول کی قیمت کا مقامی قیمت سے موازنہ کر رہے ہیں وہاں کی عوام کی قوت خرید اور پاکستان کی عوام کی قوت خرید میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں غیر متوقع اضافہ نے تیل درآمد کرنے والے ممالک کو پریشان کیا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی جولائی اور اگست کا آئل امپورٹ بل 3.1 ارب ڈالر رہا ہے جو گزشتہ سال انہی دو ماہ کے دوران ڈیڑھ ارب ڈالر تھا اور اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی کے ساتھ اسکا استعمال بھی بڑھ رہا ہے تاہم یہ دعویٰ کرناکہ پاکستان میں تیل کی قیمت خطے میں سب سے کم ہے غلط ہے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت نے عوام کوبین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے اثرات سے بچانے کے لئے محاصل میں کچھ کمی ضرورکی ہے مگر اس میں مذید کمی ممکن ہے تاہم یہ آئی ایم ایف کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ روپے کی قدر میں کمی سے جہاں معیشت کے دیگر شعبے متاثر ہوئے ہیں وہیں گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کے شعبہ کے گردشی قرضہ 2.7کھرب روپے اور گیس کا گردشی قرضہ چھ سے سات سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
گردشی قرضہ بڑھنے سے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہو رہا ہے اور اس شعبہ کی بڑی کمپنیوں کے حصص پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاور پراجیکٹس کا قرضہ بڑھتا جا رہا ہے جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں سے تعلقات میں کشیدگی آ رہی ہے جس کا حل فوری اصلاحات میں ڈی ریگولیشن میں ہے۔