اسلام آباد (این این آئی)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دنیا بیانیوں کی جنگ میں داخل ہو چکی ہے،کشمیر پر پاکستان کے بیانئے کی ترویج،منفی بیانئے کی حوصلہ شکنی کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے، خطے میں روابط کے فروغ کیلئے افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، افغانستان پر ہمارے اور امریکہ کے نکتہ نظر میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے،
افغان سفیر کی بیٹی کے معاملے پر انہیں ہر طرح کی معاونت کی پیشکش کی مگر ان کی جانب سے عدم تعاون کا رویہ روا رکھا گیا،محدود وسائل کے باوجود تیس لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں،وسائل مزید مہاجرین کے متحمل نہیں ہو سکتے،مودی سرکار کے مقبوضہ کشمیر میں 5اگست 2019کے یکطرفہ غیر آئینی اقدامات کو بھارت میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،دنیا تیزی سے تبدیلی کی جانب گامزن ہے، گلوبل ویلج میں باہمی انحصار میں اضافہ ہو رہا ہے،وزارت خارجہ کو تیزی سے بدلتے تقاضوں کیساتھ ہم آہنگ بنا رہے ہیں،ففتھ جنریشن وار فیئرمیں پاکستانی میڈیا کا کردار کئی گنا بڑھ چکا ہے،ہمیں جھوٹی خبروں اور منفی بیانیوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے،وزارت خارجہ اور ہمارے مشنز، میڈیا سے متعلقہ تمام میڈیمز کو قومی و سفارتی بیانئے کی تشہیر کیلئے بروئے کار لا رہے، ٹیکنالوجی کے موثر استعمال نے ہمیں سفارتی اہداف کے حصول میں معاونت فراہم کی ہے،انگلش چینلز نہ ہونے کے برابر ہیں ان کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔وزارتِ خارجہ میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی گیارہویں نیشنل میڈیا ورکشاپ کے شرکا نے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کی۔سپیشل سیکرٹری وزیر خارجہ آفس رضا بشر تارڑ اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری بھی اس موقع پر وزیر خارجہ کے ہمراہ موجود تھے۔
وزیر خارجہ نے میڈیا ورکشاپ کے شرکاء کو وزارت خارجہ آمد پر خوش آمدید کہا۔ میڈیا ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ آپ اپنے شعبہ میں مہارت رکھتے ہیں تاہم میں رواں دور میں میڈیا کی افادیت اور خارجہ پالیسی اہداف کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کرنا اور آپ کا نکتہ نظر سننے کا متمنی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا تیزی سے تبدیلی کی جانب گامزن ہے، اس گلوبل ویلج میں باہمی انحصار میں اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا آج بہت تیزی سے وسعت پذیر ہو رہا ہے،آج ڈیجیٹل میڈیا،پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پھیلتا پھولتا دکھائی دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا گروتھ کی وجہ سے ردعمل کا وقت
تیزی سے کم ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم وزارت خارجہ کو تیزی سے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ بنا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ وزارتِ خارجہ میری ہدایات کی روشنی میں موثر اقدامات اٹھا رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ میڈیا کا دائرہ کار تبدیل ہو رہا ہے،رائے عامہ ہموار کرنے اور ایجنڈے کی ترویج میں
میڈیا کا کردار اہم ہو چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہائی بریڈ وار فیر کا سامنا ہے، جہاں انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن دونوں کی ترسیل دکھائی دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں آپ کو مختلف بیانیے پنپتے ہوئے دکھائی دیں گے،اس ففتھ جنریشن وار فیر میں پاکستانی میڈیا کا کردار کئی گنا بڑھ
چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی بیانیے کی موثر ترویج کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے،پاکستان کے تشخص کی اصل تصویر آپ کو دنیا کے سامنے رکھنا ہے، آج دنیا بیانیوں کی جنگ میں داخل ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان کے بیانئے کی ترویج اور منفی بیانئے کی حوصلہ شکنی ہمارے پاکستانی میڈیا کے ذریعے ہو
رہی ہے اسے مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کے مقبوضہ کشمیر میں 5اگست 2019کے یکطرفہ غیر آئینی اقدامات کو ہندوستان کے اندر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں یہ ہمارے بیانئے کہ جیت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے اندر بہت سے طبقے آج کہہ رہے ہیں کہ
ہندوستان سرکار نے سیکولر انڈیا کے تشخص کو ہندوتوا میں بدل دیا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ آج اینکرز سوشل میڈیا ٹرینڈز کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے پروگراموں کا ایجنڈا ترتیب دے رہے ہیں۔ نے کہا کہ ای یو ڈس انفولیب کی رپورٹ نے چشم کشا انکشافات کیے کہ کس طرح بھارت 750 فرضی ویب سائٹس کے زریعے پاکستان کو
عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹی خبروں اور منفی بیانیوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے،پبلک ڈپلومیسی اقدام کے تحت ہم نے تمام مشنز کو ڈیجٹائز کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ہندوستان کے جرنلسٹس کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آزاد کشمیر میں جائیں اور رپورٹنگ کریں مگر ہندوستان، جو خود
کو آزادی اظہار رائے کا علمبردار ظاہر کرتا ہے وہ انہیں روک دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج وزارت خارجہ اور ہمارے مشنز، میڈیا سے متعلقہ تمام میڈیمز کو قومی و سفارتی بیانئے کی تشہیر کیلئے بروئے کار لا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا نے فلسطین پر جاری اسرائیلی جارحیت کو پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ
فلسطین کی صورتحال پر منعقدہ اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس، بارہ گھنٹے تک جاری رہا۔انہوں نے کہا کہ ابھی اجلاس جاری تھا کہ جنگ بندی کی اطلاع موصول ہوئی۔انہوں نے کہا کہ میں نے بطور وزیر خارجہ وزارت خارجہ میں بہت سی اصلاحات کو متعارف کروایا ہے۔انہوں نے کہا کہ جن میں میرے نزدیک سب سے بڑی
شفٹ جغرافیائی سیاسی ترجیحات کو جغرافیائی اقتصادی ترجیحات میں بدلنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے موثر استعمال نے ہمیں سفارتی اہداف کے حصول میں معاونت فراہم کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایف ایم کنیکٹ ایپلیکیشن، کے ذریعے میں وزارتِ خارجہ کے تمام افسران کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔وزیر خارجہ نے کہاکہ
کلچرل ڈپلومیسی کے تحت ہم نے پرائیویٹ سیکٹر کی معاونت سے پاکستان میں میوزک اور قوالی کے تاریخی ارتقا کے حوالے سے پروگرام منعقد کیا جس میں ڈپلومیٹک کمیونٹی کو مدعو کیا گیا تاکہ وہ پاکستان کے تہذیبی اثاثوں سے متعارف ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطے میں روابط کے فروغ کیلئے افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں افغانوں کی بڑی تعداد ہمارے موقف کی حامی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ افغان قیادت کا ہے کیونکہ ان کے مفادات بھارت سے ملے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میری سیکرٹری بلکن کے ساتھ دو دفعہ گفتگو ہوئی ہے، افغانستان پر ہمارے اور امریکہ کے نکتہ نظر میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے،دونوں ممالک افغانستان
میں امن کے متمنی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم خطے میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ پر امن انداز میں رہنے کے متمنی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے، لائن آف کنٹرول پر شہری آبادیوں اور نہتے کشمیریوں کا نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے اس صورتحال کو خراب کیا اب اس کی درستگی کی ذمہ داری بھی بھارت پر ہی عاید ہوتی
ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان سفیر کی بیٹی کے معاملے پر ہم نے انہیں ہر طرح کی معاونت کی پیشکش کی اور کچھ سوال ان کے سامنے رکھے ہیں،مگر ان کی جانب سے عدم تعاون کا رویہ روا رکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے ہمارا موقف واضح اور دو ٹوک ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے افغانستان کے حوالے سے آئندہ کی
حکمت عملی کے حوالے سے مشاورت کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو وزارت خارجہ میں مدعو کیا انہیں صورت حال سے آگاہ کیا اور ان کی تجاویز کو سنا۔انہوں نے کہا کہ مجھے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ نے افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ کیلئے بلایا اور میں نے انہیں بریف کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں مذاکرات کامیابی سے
ہمکنار ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے عالمی برادری کو باور کروایا ہے کہ ہم اپنے محدود وسائل کے باوجود تیس لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں، ہمارے وسائل مزید مہاجرین کے متحمل نہیں ہو سکتے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں انگلش چینلز نہ ہونے کے برابر ہے ان کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔آخر میں وزیر خارجہ نے میڈیا ورکشاپ کے شرکاء کے سوالات سنے اور ان کے تسلی بخش جوابات دیئے۔