اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )سندھ کے شہر گھوٹکی میں پیش آنے والے ٹرین حادثہ میں اب تک 60 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ کئی افراد زخمی بھی ہیں۔ اس حادثے میں کئی افراد یتیم ہوئے، کئی عورتیں بیوہ ہوئیں اور کئی معذور بھی ہو گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق حادثہ میں زخمی ہونے والے مسافر ریاض بھی اس بدقسمت ٹرین میں سوار تھے جنھوں نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ اپنے
گھر کے 5 پیاروں کو کھویا ہے۔ہماری ویب سائٹ کے مطابق مسافر ریاض اپنی فیملی کے ساتھ خوشی خوشی کراچی سے فیصل آباد جا رہا تھا، ریاض کا کہنا ہے ہم میری شادی کے سلسلے میں فیصل آباد جا رہے تھے۔ ساڑھے تین بجے جیسے ہی ہم سکھر روہڑی اسٹیشن سے نکلے تو ہماری ٹرین کی 6 نمبر بوگی دوسرے ٹریک پر چلی گئی، ہم بوگی پٹری سے ہٹنے پر کھڑے ہوگئے، اللہ کو یاد کر رہے تھے۔ کہ اتنے میں 2 سے 3 سیکنڈ کے بعد سامنے سے ایک اور ٹرین آئی اور پھر جب مجھے ہوش آیا تو سامنے لاشیں ہی لاشیں تھیں۔جب میں اٹھا ہوں تو میرے سامنے میری ماں کی لاش پڑی تھی، میرے والد خون میں لت پت پڑے تھے۔ میں انہیں نہیں بچا سکا۔ میری آنکھوں کے سامنے میرے والدین چلے گئے۔ ریاض کا کہنا ہے کہ میری بہن کے اوپر بوگی کا حصہ گرا تھا، وہ مجھے مدد کے لیے پکار رہی تھی مگر میں اس حالت میں نہیں تھا کہ اپنی بہن کی مدد کر سکتا۔ آس پاس لوگوں نے میری بہن کو نکالا۔ایک ہی گھر کے 5 افراد کے بچھڑ جانے سے ریاض صدمے سے دوچار ہے، وہ کہتا ہے کہ اللہ تو سہارا ہے ہی لیکن میرے اپنے میرا ساتھ چھوڑ گئے، اب میرا کوئی نہیں ہے۔ وقتی طور پر ہر کوئی ساتھ دیتا ہے، لیکن ماں باپ کے سوا کوئی نہیں رہتا۔ بچہ نافرمان بھی ہو تو ماں اسے گلے سے لگا لیتی ہے، باپ اس کا دفاع کرتا ہے۔ ماں باپ کہتے ہیں میرا بچہ جہاں بھی رہے خوش رہے۔ اس حادثے میں اچانک اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم اس قدر ہے کہ ریاض کا کہنا ہے کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، میرے اپنے گئے ہیں میرا دل جانتا ہے کہ میں ابھی تک اذیت سے گزر رہا ہوں۔ جب میں گھر جاتا تھا میری والدہ میرے آگے پیچھے گھومتی تھی، کھانا کھایا یا نہیں؟ طبیعت ٹھیک ہے؟َ اب کون مجھ سے پوچھے گا؟۔ جبکہ ریاض نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جب بھی بوگیاں نکالیں تو پہلے چیک کرلیں کہ کوئی بوگی خراب تو نہیں ہے، ریاض کا کہنا ہے کہ ٹرین کی کچھ بوگیاں خراب تھیں جس پر میرے چاچو نے حکام سے شکایت بھی کی تھی مگر کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ریاض کا کہنا ہے کہ جو چلے گئے اب وہ تو واپس نہیں آ سکتے ہیں لیکن جو ہیں ان کی دیکھ بھال کی جائے، کیونکہ ہم پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ہماری مالی امداد کی جائے، تاکہ ہم علاج معالجے کرواسکیں۔