ممبئی (نیوز ڈیسک)فرح خان آج کل ٹی وی کلرس پر اپنے نئے پروگرام کے ساتھ کھانا بنانے کے شو میں دکھائی دے رہی ہیں ان کے لئے یہ سب کرنا نئی بات ہے لیکن ابھی حال ہی میں انہوںنے بگ باس کے شو میں بھی دیکھا جاسکتا تھا اسی سے ترغیب ہوکر انہوںنے اس شو کیلئے حامی بھری تھی اور انہوں نے فرح خان نے اس بات کو بار بار ثابت کیا ہے، انہوں نے اپنے طویل کریئر (جو تاحال جاری ہے) کے دوران سربلند ہوکر آگے بڑھتے ہوئے مختلف مسائل پر قابو پایا ہے۔وہ ہندوستان کی مقبول ترین کوریو گرافرز میں سے ایک ہیں جنھوں نے لگ بھگ پوری ہندی فلم انڈسٹری کے ساتھ کام کیا ہے، لاتعداد ٹی وی ریئلٹی شوز میں بطور جج شرکت کی ہے، اپنے سلیبرٹی ٹاک شو کی میزبانی کی ہے، فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایتکار اور پروڈیوسر کے طور پر بھی کام کیا ہے اور اپنے ہر کردار میں کامیاب رہی ہیں۔فرح نے ہدایتکاری کا آغاز 2004 میں فلم ‘میں ہوں ناں’ سے کیا، جس میں مرکزی کردار ان کے دوست اور انڈین سپر اسٹار شاہ رخ خان نے ادا کیا، یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور اس برس میں سب سے زیادہ کمانے والی دوسری بڑی فلم قرار پائی۔ان کی ہدایتکاری سے سجی دوسری فلم ‘اوم شانتی اوم’ (2007) میں ریلیز ہوئی اور متعدد باکس آفس ریکارڈز توڑ دیئے، ‘تیس مار خان’ (2010) زیادہ کامیاب تو ثابت نہ ہوسکی مگر اس سے فرح کا حوصلہ متاثر نہیں ہوا۔ان کی نئی فلم ‘ہیپی نیو ایئر’ (ایچ این وائی) نے بولی وڈ کی پہلے روز سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم کا ریکارڈ قائم کیا اور اب تک وہ مقامی مارکیٹ میں دو سو کروڑ انڈین روپے جبکہ دنیا بھر میں چار سو کروڑ انڈین روپے کما چکی ہے۔جب ڈان کو اس باصلاحیت خاتون سے انٹرویو کا موقع ملا تو ہمارا استقبال گرم جوش “اسلام و علیکم” کے ساتھ ہوا۔جب فرح سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں ‘ہیپی نیوایئر’ کے ریکارڈ توڑ بزنس کی توقع تھی تو ان کا جواب تھا “جب ہم اس طرح ایک بڑی فلم بناتے ہیں تو ہمیشہ ہی اس کی کامیابی کے لیے دعا اور توقع کرتے ہیں کیونکہ ہر شخص اپنی فلم کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے، مگر ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ اتنی اچھی چلے گی یہی وجہ ہے کہ ہم بہت خوش ہیں، جب ایک بڑی فلم ریلیز ہوتی ہے تو ملے جلے تبصرے سامنے آتے ہیں، کچھ اس پر تنقید کرتے ہیں تو دیگر سراہتے ہیں، مگر باکس آفس پر اب تک اس کے چلنے سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کو یہ فلم بہت پسند آئی ہے”۔’ایچ این وائی’ میں وہ سب مصالحے شامل ہیں جو عوام کو اپنی جانب کھینچتے ہیں یعنی ایک بڑی اسٹار کاسٹ، عظیم الشان سیٹس، گانے اور رقص، خوبصورت سینماٹوگرافی اور مزاح، فرح فخریہ انداز میں بتاتی ہیں کہ وہ اسی طرز کا سینما ناظرین کو دینے کی خواہش رکھتی ہیں۔فرح: “میں چھوٹی و بیزارکن نہیں بلکہ صرف کمرشل فلمیں بناتی ہوں، یہاں تک کہ اگر میں نے ایسا کیا بھی تو بھی میری کوشش لوگوں کو تفریح فراہم کرنا ہوگی کیونکہ میں خود تفریحی فلمیں دیکھنا پسند کرتی ہوں، الفریڈ ہچکاک کہتے تھے کہ جو سب سے بڑا جرم ا?پ کرسکتے ہیں وہ ناظرین کو بور کرنا ہے اور میں ایسا نہیں کرنا چاہتی”۔اگرچہ اس فلم نے باکس آفس پر کروڑوں کمائے ہیں مگر اس پر شدید تنقید بھی ہو رہی ہے، فرح کے خیال کے مطابق “ایسا تو ہمیشہ سے ہو رہا ہے، ‘شعلے’ سے لے کر ‘امر اکبر انتھونی’ تک ہر بڑی فلم کو پہلے ہفتے کے دوران شروع میں اسی طرح کے ردعمل کا سامنا ہوا، بلکہ شعلے کو تو ابتدائی دو یا تین ہفتوں بعد فلاپ قرار دے کر سینما?ں سے ہٹا دیا گیا تھا، مگر ہماری فلم دو سو کروڑ سے زائد کما چکی ہے جس کا مطلب ہے کہ لوگ اسے پسند کر رہے ہیں، میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ ایک فلم کو سانس لینے کا موقع فراہم کرنا چاہئے اور پہلے ہی روز اس پر جھپٹنا نہیں چاہئے”۔کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ اسی طرح کی فلمیں عوام دیکھنا چاہتے ہیں؟فرح: “میں اس فکر میں نہیں پڑتی کہ کس کو کیا پسند آئے گا، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ‘میں ہوں ناں’ پاکستان میں اتنی اچھی چلے گی، جب بھی میری لندن یا امریکا میں پاکستانیوں سے ملاقات ہوتی ہے تو میرے لیے بہت زیادہ محبت اور لگا کا اظہار کرتے ہیں جس کی وجہ ‘میں ہوں ناں’ ہے، جو کہ ہندوستان میں میری سب سے زیادہ تنقید کی زد میں ا?نے والی فلم تھی، اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی کچھ مخصوص افراد کی تنقید اور منفی سوچ ختم نہیں ہوسکی جن کا خیال ہے کہ میں ایک ہی طرح کی فلمیں بنا سکتی ہوں، ان کا خیال ہے “ایک خاتون کس طرح ایک بڑی کمرشل فلم کی ڈائریکٹر ہوسکتی ہے، اسے تو خواتین کے مسائل پر مبنی حساس اور چھوٹی فلمیں تیار کرنی چاہئے، ایسی فلمیں بنتی بھی ہیں مگر مجھ پر کبھی انہیں بنانے کا دباﺅنہیں ہوتا”۔فرح کا کہنا تھا کہ ‘خاتون ڈائریکٹر’کا عنصر ہی تنقید کے پیچھے ہے کیونکہ لوگ دیگر ڈائریکٹر کی بہت بری فلموں کو فراموش کردیتے ہیں۔تاہم فرح تنقید سے متاثر نہیں ہوتیں انہوں نے ‘میں ہوں ناں’ کے بعد سے بہت کچھ سہا اور ان کے اپنے الفاظ میں وہ “سینٹ فرح” بن چکی ہیں جسے ناقدین کی اتنی توجہ ملتی ہے۔وہ کہتی ہیں کوئی بھی مثبت چیزوں کی بات نہیں کرتا “بومن ایرانی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم اچھی چیزوں کو فراموش کردیتے ہیں اور اپنی توجہ تنقید پر موکوز کردیتے ہیں، ہزاروں افراد ہمیں سراہتے ہیں مگر ہم صرف ان دو کی بات کرتے ہیں جو ہم پر ضرب لگاتے ہیں، میں بہت خوش ہوں کہ میری فلم پاکستان میں بھی بہت اچھی چلی، میں کبھی اپنی فلموں میں حب الوطنی، پاکستان مخالف جذبات یا اسی طرح کی دیگر چیزیں کرنے کی کوشش نہیں کرتی”۔ان کی فلم کو ایک اور تنازع کا سامنا اس وقت ہوا جب لیجنڈ کوریوگرافر سروج خان نے ‘ہیپی نیو ایئر’ میں اپنی شخصیت کو مذاق بنائے جانے کو زیادہ پسند نہیں کیا اور ڈائریکٹر پر برس پڑیں، مگر فرح اس بات کی تردید کرتی ہیں کہ وہ سروج خان کا مذاق اڑا رہی تھیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ تو فلموں میں ان لوگوں کو ہی شامل کرتی ہیں جن سے وہ متاثر ہیں یا ان کی پرستار ہیں اور سروج کا انتخاب بھی اسی لیے کیا گیا۔بڑی اسٹار کاسٹ، یعنی ا?ج کی ہندی فلمی صنعت کے چند بڑے ناموں کے ساتھ کسی فلم کی شوٹنگ کسی جنگ سے کم نہیں، کیا ان کے ساتھ مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا؟فرح: “یہ میرے پورے کریئر کے چند بہترین تجربات میں سے ایک تھا، ہم ایک خاندان کی طرح ہیں اور ہم نے ایک ساتھ 170 سے 180 دن ساتھ گزارے جو کہ ان ایام سے بھی زیادہ ہیں جو ہم اپنے خاندانوں کے ساتھ گزارتے ہیں”۔