لندن(این این آئی)برطانیہ کے شہر برمنگھم میں واقع ورڈن فورینزکس نامی ایجنسی سے وابستہ فورینزک میڈیا ایگزامینر جیمز زالک نے بتایاہے کہ ویڈیو کے فورینزک کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی گلوبل اور لوکل۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانیہ کے شہر برمنگھم میں واقع ورڈن فورینزکس نامی ایجنسی سے وابستہ فورینزک میڈیا ایگزامینر جیمز زالک نے بتایاکہ ویڈیو کے
فورینزک کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی گلوبل اور لوکل۔گلوبل تجزیے کے ذریعے یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ میں ترمیم کی گئی ہے یا نہیں، تاہم یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ وہ ترمیم اس میں کس جگہ کی گئی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے برعکس لوکل تجزیے میں یہ پتا لگایا جاتا ہے کہ یہ ترامیم ریکارڈنگ میں ٹھیک کن کن مقامات پر کی گئی ہیں۔فورینزک کے ماہر جیمز زالک کے مطابق ویڈیو کے فورینزک تجزیے کے لیے بہت سے سافٹ ویئر موجود ہیں تاہم تجزیہ کار زیادہ تر تصدیق کرتے وقت وہ سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں جو انھوں نے اپنی سائنسی تحقیق کی روشنی میں خود تیار کیا ہو۔ان کا کہنا تھا تصدیق کار تجزیے کی مختلف اقسام کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیو کے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ہر ویڈیو میں کم از کم دو سٹریمز یا دھارے پائے جاتے ہیں یعنی ایک تصویری اور دوسرا صوتی۔انھوں نے بتایا کہ پہلے تصویری دھارے کا جائزہ لیا جاتا ہے،تصویری دھارا ویڈیو فریمز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں ممکنہ ترامیم کا پتہ چلانے کے لیے جائزے کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس دھارے کے بہاؤ میں کوئی تضاد تو نہیں یا پھر کوئی فریم گرا ہوا یا غائب تو نہیں ہے۔جیمز زالک نے کہاکہ سکرین پر نظر آنے والے اس کے وقت اور اس کے حقیقی دورانیے کے درمیان ممکنہ تضاد اور صوتی دھارے کے ساتھ اس کی مطابقت کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ دونوں دھاروں میں دہرا دباؤ بھی ترامیم کی نشاندہی کر سکتا ہے۔جیمز زالک کے مطابق اس کے بعد ویڈیو میں موجود آڈیو سٹریم یعنی صوتی دھارے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کے مرحلوں، توانائی، دباؤ کی سطح اور طویل مدتی سپکٹرم کی اوسط کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔آخر میں فائل کنٹینر یعنی کمپیوٹر پر موجود وہ ڈبا جس میں ویڈیو کی فائل موجود ہوتی ہے اس کا
تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس میں فائل کی ساخت، خصوصیات، ای ایکس آئی ایف ڈیٹا اور فائل کے ہیڈر اور فوٹر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔جب تمام تر تجزیے مکمل کر لیے جائیں تو ان کے نتائج کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر دیکھا جاتا ہے اور اس کے بعد ہی تجزیہ کار اپنی رائے دے سکتا ہے۔جیمز زالک نے بتایا کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ایسا بہت مشکل ہے کہ جعل سازی پکڑی نہ جا سکے۔