جنیوا(نیوز ڈیسک)عالمی موسمیاتی تنظیم ( ڈبلیوایم او) کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں شدید موسم کے کئی ریکارڈ ٹوٹے ہیں جو پوری دنیا کے لیے تشویش کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق 2015 میں جنوبی ایشیا میں گرمی کی شدید لہر نے متعدد افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور آرکٹک میں برف پگھلنے میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے اجرا کے موقع پر ڈبلیو ایم او کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ہم گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے آب و ہوا میں جس طرح کی تبدیلی دیکھ رہے ہیں اس کی جدید عہد میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عالمی تنظیم کے مطابق اس سال درجہ حرارت میں اضافے کے کچھ نئے ریکارڈ نوٹ کیے گئے ہیں، گلوبل وارمنگ کا اصل مرکز سمندر ہیں جہاں ایل نینو کی وجہ سے عجیب وغریب تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس صدی کے آغاز تک پوری دنیا کے سمندروں میں حرارت ناپنے والے سینسرز کی تعداد 3 ہزارتھی جو بتاتے ہیں کہ 2015 میں گرمی کی شدت 2 ہزار میٹر گہرائی تک جاپہنچی ہے۔ برطانوی موسمیاتی ماہر کے مطابقکاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں میں اضافے سے فضا میں گرمی جمع ہونے میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ گرمی اب سمندروں کی گہرائی میں اتر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق رواں برس جنوری اور فروری میں ہوا میں گرمی ان مہینوں کے مقابلے میں سب سے بلند دیکھی گئی ہے جب کہ 2016 کے آغاز میں اس بلند درجہ حرارت نے موسمیاتی ماہرین کو حیرت زدہ کردیا ہے۔
ارضی حرارت کا بگڑتا ہوا توازن:
ماہرین کے مطابق سینسر بتاتے ہیں کہ زمین گرمی کو خارج کم اور وصول زیادہ کررہی ہے۔ مثلاً زمین کے ہر مربع میٹر سطح کے مقابلے میں زمین پر 0.65 سے 0.8 واٹ تک کی توانائی زیادہ جذب ہورہی ہے جو ایک پریشان کن بات ہے۔ اس کے علاوہ 1979 سے اب تک آرکٹک سمندروں میں کم ترین برف ریکارڈ کی گئی ہے جو 14.54 ملین کلومیٹر تک ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت اور پاکستان میں رونما ہونے والی گرمی کی شدید لہر کو بھی شامل کرتے ہوئے مزید خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
عالمی ماہرین نے گزشتہ برس موسمیاتی شدت میں تیزی سے تبدیلی پر تشویش کا اظہار کردیا
24
اپریل 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں