لندن (نیوزڈیسک ) امریکی خلائی ادارے ناسا کے خلائی جہاز نیو ہورائزنز نظام شمسی کے آخری سیارے پلوٹو کی جانب سفر کے آخری اور سب سے اہم مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔یہ خلائی جہاز ساڑھے نو برس میں پانچ ارب کلومیٹر کا سفر طے کر کے پلوٹو تک پہنچا ہے۔نیو ہورائزنز منگل 14 جولائی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح 11 بج کر 50 منٹ پر اس سیارے کے قریب ترین پہنچے گا اور اس وقت اس کا پلوٹو سے فاصلہ صرف 12500 کلومیٹر ہوگا۔پلوٹو کے قریب سے انتہائی تیزی سے گزرتے ہوئے نیو ہورائزنز اس کی تفصیلی تصاویر کھینچے گا اور اس کے بارے میں دیگر سائنسی معلومات اکٹھی کرے گا۔اس مرحلے میں داخلے سے قبل جہاز کے کنٹرولرز نے آخری بار اس کی حالت کی رپورٹ حاصل کی جس کے بعد اس روبوٹک خلائی گاڑی سے زمین کی جانب سے اپنا انٹینا موڑ کر اپنے ہدف پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔اب یہ جہاز زمین سے اسی وقت رابطہ کرے گا جب اس کے پاس پلوٹو کی تصاویر اور ڈیٹا جمع ہو چکا ہوگا۔اب اس مشن سے وابستہ سائنسدانوں کو اب پانچ ارب کلومیٹر دور سے آنے والے سگنل کے لیے طویل انتظار کا سامنا ہے۔امریکہ کی جان ہوپکنز یونیورسٹی میں نیو ہورائزنز کی ٹیم اس سگنل کی شدت سے منتظر رہےگی کہ روبوٹک جہاز کے بغیر کسی حادثے کے پلوٹو کے قریب سے گزرنے کا مشن مکمل ہو چکا ہے۔یہ رابطہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب برطانوی وقت کے مطابق ایک بجے کے قریب متوقع ہے۔نیو ہورائزنز کا 2370 کلومیٹر چوڑے پلوٹو کے قریب سے گزرنا خلا کو جاننے کی تاریخ کا انتہائی اہم لمحہ ہے۔ناسا کا خلائی جہاز صرف پلوٹو کا ہی نہیں بلکہ اس کے پانچ چاندوں، کھیران، سٹکس، نکس، کربیروس اور ہائیڈرا کا بھی جائزہ لے گااس کی کامیابی کے نتیجے میں عطارد سے لے کر پلوٹو تک نظامِ شمسی کے تمام نو سیاروں تک کم از کم ایک خلائی سفر کا عمل مکمل ہو جائے گا۔پلوٹو کی جانب سفر کے دوران نیو ہورائزنز حالیہ چند دنوں میں مسلسل معلومات بھیجتا رہا ہے لیکن یہ معلومات کے اس خزانے کے سامنے کچھ نہیں جو وہ پلوٹو کے انتہائی قریب سے گزرتے ہوئے بھیجے گا۔ناسا کا خلائی جہاز صرف پلوٹو کا ہی نہیں بلکہ اس کے پانچ چاندوں، کھیران، سٹکس، نکس، کربیروس اور ہائیڈرا کا بھی جائزہ لے گا۔نیو ہورائزنز منصوبے کے مرکزی محقق ایلن سٹرن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ڈیٹا کا جائزہ لینے کے لیے بےچین ہوں۔ اس وقت تو ہم جیسے ایک آبشار کے نیچے کھڑے اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔خلائی جہاز کو پلوٹو کے قریب سے گزارنا ہی ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے۔ یہ جہاز پہلے سے فیڈ کی گئی کمانڈز پر عمل کرتے ہوئے سفر کر رہا ہے اور اسے پلوٹو کے قریب سےگزرنے کے لیے مقررہ راستے پر ہی سفر کرنا ہوگا۔اتوار کو انجینئرز نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نیو ہورائزنز کے کمپیوٹرز میں پہلے سے فیڈ کی گئی کمانڈز کے علاوہ اب اسے مزید کمانڈز نہیں بھجوائی جائیں گی۔اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ جہاز پر نصب ا ہائی ریزولیوشن کیمرہ لوری صحیح وقت پر تصاویر کھینچے کیونکہ اگر تصاویر لینے میں تعجیل یا تاخیر کی گئی تو اس کا نتیجہ پلوٹو اور اس کے چاندوں کی تصاویر کی جگہ خالی آسمان کی تصاویر کی شکل میں نکل سکتا ہے۔