ہفتہ‬‮ ، 28 دسمبر‬‮ 2024 

نہ ختم ہونے والی توانائی کا خواب ابھی تعبیر سے دور

datetime 27  مئی‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیو زڈیسک )1985 ءمیں اس وقت کے سوویت یونین کے سربراہ گورباچوف اور امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ایک اچھوتے خیال کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا۔ اور یہ تھا اس ذریعے سے توانائی کا حصول جو ستاروں کو اربوں برسوں سے روشن رکھے ہوئے ہے۔اس مقصد کے لیے سرد جنگ کے ان حریف ممالک یعنی سوویت یونین اور امریکا کے علاوہ دیگر ممالک نے باہمی تعاون کا فیصلہ کیا تاکہ مستقبل میں توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ بڑی مقدار میں یہ توانائی دراصل نسبتاً محفوظ طریقے سے حاصل کی جانی تھی جسے فیوڑن کا نام دیا جاتا ہے۔اس فیصلے کو آج 30 برس ہو چکے ہیں مگر یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ بنیادی فیصلے کے بعد کئی برسوں کی کوششوں کے بعد 2006ءمیں بالآخر شروع ہونے والا ’انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمنٹن ری ایکٹر‘ (ITER) نامی منصوبہ ابھی تک نا مکمل ہے۔ ابتدائی طور پر اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ پانچ بلین یورو لگایا گیا تھا مگر اب یہ اندازہ 15 بلین یورو تک پہنچ چکا ہے۔تاہم رواں برس مارچ میں چارج سنبھالنے والے اس منصوبے کے نئے ڈائریکٹر جنرل بیرنار بیگو کا کہنا ہے کہ ان کی پوری کوشش ہو گی کہ اگلے چار برسوں میں اس منصوبے کی آزمائش ممکن ہو سکے گی۔ کیونکہ اب اس منصوبے کے پارٹنر کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ توانائی کے حصول کے اس اہم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے۔ 65 سالہ بیگو لمبے عرصے تک فرانس کے اٹامک انرجی کمیشن (CEA) کے سربراہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ 28 رکنی یورپی یونین، امریکا اور روس کی جانب مشترکہ فیصلہ سازی میں آنے والی تاخیر ہے۔ITERکی ایک ذمہ داری ایک ایسے تجرباتی لیبارٹری کی تیاری ہے

0,,5841715_4,00
جس میں یہ دیکھا جا سکے کہ آیا فیوڑن اس صدی کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک حقیقی ذریعہ بن بھی سکتی ہے یا نہیں۔فیوڑن دراصل ایک ایسا عمل ہے جس میں کم ایٹمی وزن رکھنے والے عناصر کے نیوکلیئس کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر اس طرح ملایا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں زیادہ ایٹمی وزن والے عناصر وجود میں آتے ہیں اور اس سارے عمل کے دوران توانائی کی بہت زیادہ مقدار پیدا ہوتی ہے۔غیر معمولی حجم کی لیبارٹری کا وزن 23000 ٹن ہو گا یعنی آئیفل ٹاور سے تین گنا زیادہ غیر معمولی حجم کی لیبارٹری کا وزن 23000 ٹن ہو گا یعنی آئیفل ٹاور سے تین گنا زیادہ نیوکلیئر فیوڑن کا عمل دراصل نیوکلیئر فِشن کے بالکل بر عکس ہے۔ فشن کا طریقہ دراصل ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں بھاری عناصر کو چھوٹے عناصر میں توڑا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران بھی بہت زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ تاہم فشن پراسیس میں ایک قباحت یہ ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں ایک تو یہ بہت خطرناک ثابت ہو سکتا تو دوسرا مسئلہ اس پراسیس کے بعد پیدا ہونے والے تابکار مادے کو ٹھکانے لگانا بھی ہوتا ہے جو طویل عرصے تک خطرات کا باعث بنا رہتا ہے۔طویل تاخیر کے بعد اب فرانس کے جنوبی حصے میں اس تجرباتی لیبارٹری کے لیے درکار ضروری عمارات پر کام جاری ہے۔ مرکزی عمارت جسے ’ٹوک ماک‘ کا نام دیا گیا ہے وہ 2018ءمیں مکمل ہو گی جبکہ تمام 39 عمارات 2022ءتک پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں گی۔روسی زبان سے لیے گئے لفظ ٹوک ماک نامی یہ لیبارٹری بذات خود ایک غیر معمولی حجم کی لیبارٹری ہے جس کا وزن 23000 ٹن ہو گا یعنی آئیفل ٹاور سے تین گنا زیادہ وزن کی حامل۔بیرنار بیگو کے مطابق، ”مشکلات تو ہیں مگر ہمارا مکمل یقین ہے کہ نیوکلیئر فیوڑن پر کی جانے والی سرمایہ کاری فائدہ مند ثابت ہوگی“۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…