اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگراں حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے اپنی غیرجانبداری کو یقینی بنائیں۔ جنگ اخبار میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق کمیشن کو صوبائی انتظامیہ کے معاملات میں سیاسی مداخلت کی شکایات موصول ہوئیں۔
کمیشن کے ذرائع کو خدشہ ہے کہ اگر ایسی مداخلتوں کو نہ روکا گیا اور نگراں حکومتوں کی غیر جانبداری پر سمجھوتہ کیا گیا تو اس سے منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انداز سے عام انتخابات نہیں ہو پائیں گے۔ دونوں صوبوں کے نگراں وزرائے اعلیٰ کو لکھے گئے خط میں سیکرٹری الیکشن کمشنر عمر حمید خان نے کہا ہے کہ کمیشن کو معلوم ہوا ہے کہ بعض افراد، انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار اور سیاسی جماعتوں کے ارکان ضلعی انتظامیہ اور صوبائی محکموں کے ارکان کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں۔ 22؍ جون کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کے تحت، نگراں حکومت کا کردار اور فرائض یہ ہیں کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو کھیلنے کیلئے مساوی اور غیر جانبدارانہ انداز سے میدان فراہم کرے۔ نگراں حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ غیر متنازع رہے اور آئین اور قوانین کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مدد کرے۔ معلوم ہوا ہے کہ بعض افراد، الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار اور سیاسی جماعتوں کے ارکان ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ اور مختلف محکموں کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو امید ہے کہ نگراں حکومت قانون میں وضع کردہ مینڈیٹ کے مطابق اپنے فرائض انجام دے گی اور ماتحت دفاتر اور فیلڈ فارمیشنز یعنی ضلع اور ڈویژنوں پر نظر رکھے گی۔‘‘ کمیشن کے ذرائع نے رابطہ کرنے پر ان شکایات کی تفصیلات شیئر نہیں کیں جو اسے دونوں صوبوں سے موصول ہوئی ہیں۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ محض عام شکایات ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔
تاہم پی ڈی ایم حکومت، پارلیمنٹ، صوبائی نگراں حکومتوں اور فوجی حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔ ان صوبوں میں انتخابات میں تاخیر کی وجہ سے دونوں صوبوں میں نگراں حکومتوں کی معیاد 90 دن سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب انتخابات رواں سال اکتوبر یا نومبر میں متوقع ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان نگران حکومتوں کی مدت مزید طول پکڑے گی۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان نگراں حکومتوں کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ خصوصاً پنجاب کی نگران حکومت کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نہ صرف پی ٹی آئی پنجاب کی نگراں حکومت پر تنقید کرتی ہے اور اسے پی ٹی آئی پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذمہ دار قرار دیتی ہے بلکہ پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت میں اتحادی جماعت پپیلز پارٹی نے بھی حال ہی میں شکایت کی ہے کہ نون لیگ کی مدد کی جا رہی ہے اور پیپلز پارٹی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے معاملے میں عموماً کہا جاتا ہے کہ صوبائی انتظامیہ عبوری وزیر اعلیٰ سے زیادہ گورنر کے زیر اثر ہے۔ کے پی کے گورنر کا تعلق جے یو آئی (ف) سے ہے، جو مرکز میں پی ڈی ایم حکومت میں اتحادی ہے۔