ہفتہ‬‮ ، 30 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

لاہور جلسے کے بارے میں بی بی سی کی رپورٹ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جتنا اس کی طرف سے 1965ء میں لاہور پر بھارتی قبضے کی خبر، لاہور جلسے سے متعلق غلط رپورٹنگ کرنے پر بی بی سی پر کڑی تنقید

datetime 15  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)اپوزیشن جماعتوں کے لاہور جلسے سے متعلق بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بہت بڑا جلسہ ہوا تھا اور مختلف ٹی وی چینلز نے اپنی مرضی سے شرکاء کی تعداد بتائی ہے، بی بی سی کی رپورٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے معروف صحافی ہارون رشید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ لاہور جلسے کے بارے میں بی بی

سی کی رپورٹ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جتنا اس کی طرف سے 1965ء میں لاہور پر بھارتی قبضے کی خبر، الطاف حسین کی طرح برطانیہ نواز شریف کا بھی سرپرست ہے، بی بی سی اس پالیسی کو ملحوظ رکھتا ہے، نمائندوں اور کالم نگاروں کے انتخاب میں بھی، کچھ آزاد، کچھ شریف نواز۔ واضح رہے کہ بی بی سی نے اپنے تبصرے میں لاہور جلسے کے بارے میں کچھ اس طرح کہا تھاکہ گذشتہ شام اگر آپ نے ٹی وی آن کر رکھا تھا تو اپنی سکرینوں پر ایسے مناظر تو دیکھے ہوں گے جن میں مینارِ پاکستان پر سیاسی جماعتوں کے حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جلسہ گاہ تقریباً خالی نظر آ رہی تھی جبکہ چند سکرینوں پر کافی لوگ موجود نظر آئے۔لیکن اگر ہماری طرح آپ کا زیادہ وقت ٹی وی کے بجائے سوشل میڈیا پر گزرتا ہے تو وہاں منظرنامہ ٹی وی کے بالکل برعکس تھا۔ کئی مرتبہ تو ایسا محسوس ہوا کہ چند ٹی وی چینلز کسی اور جلسے کی کوریج کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر شاید کسی مختلف جلسے کی تصاویر اور ویڈیوز شئیر کی جا رہی ہیں۔ایک نجی چینل کے مطابق پی ڈی ایم کی قیادت نے جس تعداد کا دعویٰ کیا تھا اس کے 10 فیصد لوگ بھی جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھے۔ کسی چینل پر جلسے کے شرکا کی تعداد تین سے چار ہزار کے بیچ تھی تو دوسرے چینل کے رپورٹر یہ کہتے سنائی دیے کہ مینارِ پاکستان پر 60 ہزار سے زیادہ لوگ موجود ہیں۔کئی چینلز

یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آئے کہ مینار پاکستان کا پورا گراؤنڈ استعمال نہیں کیا جا رہا اور چار میں سے صرف ایک حصے پر جلسہ کیا گیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پورا گراؤنڈ بھرنا اپوزیشن کے بس کی بات نہیں ہے۔ غرض جس میڈیا گروپ کا جس سیاسی پارٹی کی جانب جھکاؤ تھا وہ اسی حساب سے جلسے کی کوریج کرتا دکھائی دیا۔ دوسری جانب چند صحافی جلسے کی کوریج اور شرکا  کی

درست تعداد کے حوالے سے میڈیا پر حکومتی دباؤ کی شکایت بھی کرتے دکھائی دیے۔ایک نجی چینل کے رپورٹر نے جب جلسہ گاہ میں شرکا کی تعداد ستر ہزار کے قریب بتائی تو وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اتنی زیادہ تعداد بتانے پر سخت برہم ہوئے۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے صحافی حامد میر نے لکھا ’جلسہ پی ڈی ایم کا ہے اور تقریریں شروع ہو چکی ہیں، وزیراعظم کے

ایک معاون خصوصی جو دنیا نیوز کے ایک رپورٹر کی مذمت کر رہے ہیں جس نے کہا جلسے میں ستر ہزار کے قریب لوگ آ چکے ہیں۔ آپ اختلاف کریں لیکن میڈیا پر دباؤ ڈال کر پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام نہ کریں۔ بی بی سی کے تجزیے کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنی تقریر میں جلسے کی کوریج کے حوالے سے میڈیا چینلز پر دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میڈیا والوں

کو شرم آنی چاہیے جو کہتے ہیں کہ چند ہزار لوگ جلسہ میں شریک ہیں۔ ان کو اور ان سے یہ کہلوانے والوں کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ دوسری جانب بی بی کی نامہ نگار جو مینار پاکستان پر موجود تھیں انہوں نے بتایا کہ کل صبح جب کوریج کرنے کے لیے مینار پاکستان کی طرف روانہ ہوئی تو سوچ رہی تھی کہ اگر راستے بند ہوئے یا رکاوٹیں ہوئیں تو کس راستے سے مینار

پاکستان تک پہنچوں گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، پورے شہر میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں لگائی گئی اور میں با آسانی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔آزادی پل پر درجنوں افراد جن میں فیملیز بھی شامل تھیں، اپنی سواری سائیڈ پر لگا کر تصاویر بنوانے کے علاوہ جلسہ گاہ کا نظارہ بھی کر رہے تھے۔ مینار پاکستان کے گروانڈ میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ سیاسی جماعت

کے کارکنان کی جانب سے انتظامات پورے ہو چکے تھے اور لوگوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھی۔صبح سے لے کر دوپہر کے اوقات تک جلسہ گاہ میں جن زیادہ تر کارکنان سے ملاقات ہوئی ان میں ایک بڑی تعداد پاکستان کے دیگر شہروں سے آنے والوں کی تھیں۔تاہم دو بجے کے بعد خواتین اور بچوں سمیت کئی شرکا ٹولیوں کی صورت میں آنا شروع ہو گئے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا

تعلق لاہور سے تھا۔جلسے کی کوریج کرنے والا ہر صحافی اپنا الگ الگ تجزیہ دے رہا تھالیکن ایک سوال جو تقریباً ہر صحافی کو ہی ان کے چینل کی جانب سے پوچھا جا رہا تھا، وہ یہ تھا کہ جلسہ گاہ میں کتنے لوگ ہیں؟مینارِ پاکستان پر موجود صحافی اپنے اپنے اندازے کے مطابق رپورٹ کر رہے تھے۔ کچھ ڈرون کیمرے سے فوٹیج بنا رہے تھے تو کوئی سٹیج کے سامنے سے فوٹیج بنانے

میں مصروف تھا۔ چند افراد کو جلسہ گاہ کے آخری سرے سے فوٹیج بنانے کی ہدایات بھی موصول ہوئیں اور کوریج کا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔بی بی سی کی نامہ نگار کے مطابق جب شام ڈھلنا شروع ہوئی تو جلسہ گاہ میں شرکا کی تعداد بڑھنے لگی اور ایک وقت ایسا آیا کہ جلسہ گاہ بھر گئی اور آزادی پل پر اور گراؤنڈ سے باہر بھی لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔بی بی سی کی رپورٹ

کے مطابق جیسے جیسے جلسہ گاہ میں شرکا کی تعداد بڑھنے لگی، ٹی وی چینلز پر ماحول بھی بدلنے لگا اور کئی رپورٹرز یہ تاثر دیتے نظر آئے کہ شاید جلسہ گاہ خالی ہے اور مینارِ پاکستان پر شرکا سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ اس موقع پر پاکستان تحریکِ انصاف کے

بیشتر رہنما بھی ان چینلز کے کلپ شئیر کرتے اور پی ڈی ایم کے جلسے کو ’فلاپ شو‘ قرار دیتے نظر آئے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ڈی ایم جلسہ کامیاب رہا یا پھر ناکام، اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ نے جلسے کی کوریج کس چینل پر دیکھی۔

موضوعات:



کالم



ایک ہی بار


میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…