کورونا کی وجہ سے پاکستان میں کتنے کروڑ بچے تعلیمی لحاظ سے متاثر ہیں،یونیسف کی رپورٹ میں حیرت انگیز انکشاف

6  دسمبر‬‮  2020

اسلام آباد( آ ن لائن ) اقوامِ متحدہ کے ادارے ’’یونیسف‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں ایک ارب 30 کروڑ سکول جانے والے طلبہ کے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے جبکہ پاکستان میں لگ بھگ چار کروڑ بچے متاثر ہوئے ہیں جن میں اکثریت سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی ہے۔پاکستان میں انٹرنیٹ کا معیار بہتر نہ ہونے اور دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ اور

بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے دیہاتوں میں رہنے والے طالب علم سب سے متاثر ہورہے ہیں بڑے شہروں میں بھی ملک کے سب سے بڑے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے ادارے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن کارپوریشن(پی ٹی ایل) اور 4جی سروس فراہم کرنے والی موبائل فون کمپنیوں کا معیار انتہائی پست ہے جبکہ انہیں ریگولیٹ کرنے والے حکومتی ادارے مجرمانہ خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں .پاکستان کے دیگر سرکاری اداروں کی طرح یہاں بھی کرپشن کا عنصر نظرآتا ہے شہریوں کا کہنا ہے کہ جو موبائل فون کمپنیاں بڑے شہروں میں فون کال سروس ٹھیک طرح سے فراہم کرنے میں ناکام ہیں وہ انٹرنیٹ کی سہولت کیسے مہیا کرسکتی ہیں؟ صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم’’صارف‘‘ کا کہنا ہے کہ متعلقہ وزیرسے لے کر وزیراعظم کے قائم کردہ شکایات سیل تک شہریوں کی شکایات کا ازالہ نہیں ہورہا ہے پاکستانی انٹرنیٹ اور موبائل فون کمپنیوں کے صارفین خوار ہورہے ہیں مگر ان کا پرسان حال کوئی نہیں تنظیم نے وزیراعظم سیٹزن پورٹل کی جانب سے شکایت کے حل کے حوالے سے جاری اعدادوشمار کو غیرحقیقی قراردیا تنظیم کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی وزیراعظم کو جو رپورٹ اور اعدادوشمار پیش کرتی ہے وہ اسے میڈیا کو بتادیتے ہیں حالانکہ وہ حقائق کے منافی اور جھوٹے ہوتے ہیں.رپورٹ میںپاکستان میں متاثر ہونے والے بچوں سے متعلق کہا گیا کہ

ان میں بہت کم بچوں کی تعداد ایسی ہے جو آن لائن تعلیمی سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں رپورٹ کے مطابق متاثر ہونے والے طلبہ میں سب سے بڑی تعداد جنوبی ایشیا کے بچوں کی ہے جہاں 44 کروڑ 90 لاکھ بچوں یعنی 88 فی صد کے پاس گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے جس ہونے کی وجہ سے کورونا کے دوران آن لائن تعلیم کا حصول لگ بھگ نہ ممکن ہے یونسیف

کے مطابق دنیا بھر کے محض 33 فی صد بچوں کے پاس ہی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے.جنوبی ایشیا میں سکول جانے والے غریب ترین آبادی کے طلبہ جن کی عمریں 3 سے 17 سال کے درمیان ہے ان کی محض دو فی صد کو ہی انٹرنیٹ کی فراہمی میسر ہے جبکہ غریب ترین آبادی کے 15 سے 24 سال کے نوجوانوں میں یہ شرح بھی محض 3 فی صد ہے اسی طرح اس خطے کے

متمول گھرانوں کے سکول جانے والے بچوں کو بھی 40 فی صد اور نوجوانوں کی 47 فی صد تعداد کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے تاہم یہ شرح مغربی اور وسطی افریقہ کے ممالک میں اور بھی کم ہے.اسی طرح دنیا بھر میں اگر تعلیم حاصل کرنے والوں کی عمر 25 سال تک بڑھا دی جائیں تو دو ارب 20 کروڑ بچوں اور نوجوانوں کے پاس وبا کے دور میں تعلیم

جاری رکھنے کے لیے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں یہ تعداد دنیا میں نوجوانوں کی تعداد کے 65 فی صد کے برابر بنتی ہے. رپورٹ کے مطابق یہ اعداد و شمار انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم کے حصول میں عدم مساوات کو کی بھی نشان دہی کرتے ہیں رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ تک محدود رسائی سے عدم مساوات مزید گہری ہو رہی ہے اعداد و شمار کے مطابق طلبہ کے لیے گھروں

میں انٹرنیٹ کی دستیابی کا انحصار زیادہ تر اس بات پر ہے کہ یہ بچے کن ممالک اور کن علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کے گھریلو معاشی حالات کس قدر بہتر ہیں۔رپورٹ اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ جن ممالک میں معاشی ترقی زیادہ ہے وہاں انٹرنیٹ کی رسائی قدرے آسان ہے دنیا میں شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ تک رسائی کی شرح 16 فی صد سے کم بتائی جاتی

ہے جبکہ غریب علاقوں کے بچوں اور نوجوانوں کو گھروں پر انٹرنیٹ کی رسائی انہی ممالک کے امیر گھرانوں کے بچوں سے 42 فی صد سے کم بتائی جاتی ہے.رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک جانب دنیا بھر میں کورونا وبا کے دوران تعلیمی نظام کو ہائبرڈ ماڈل اور فاصلاتی تعلیم پر منتقل کرنے پر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے تاہم انٹرنیٹ کی عدم دستیابی بچوں اور نوجوانوں کو موثر اور

بہتر طریقہ تعلیم میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے پاکستان میں سکول بند ہونے سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد چار کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جو سکول بند ہونے کی وجہ سے گھروں پر ہی رہنے میں مجبور ہیں.تاہم بہت کم ایسی تعداد ہے جو آن لائن تدریس کے ذریعے اپنا تعلیمی سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں خاص طور پر دیہی علاقوں اور دور دراز علاقوں کے بچے

سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیںماہرین کے مطابق شہری علاقوں میں بھی جامعات کی حد تک تو یہ شرح قابل ستائش ہے لیکن سکولوں اور کالجز کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے دیہی علاقوں کے ساتھ شہری علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی گھروں تک رسائی

کم ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ خاص طور پر وہ بچے جو سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کے پاس گھروں میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی شرح اور بھی زیادہ ہے اس وجہ سے ان کے لیے آن لائن طریقے سے تعلیم کا حصول تقریباً نہ ممکن ہے۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…