اسلام آباد، لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی)سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت 43 لیگی رہنمائوں کے خلاف سازش، غداری و بغاوت کا مقدمہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انوکھا مقدمہ ہے جس میں 10سیاسی خواتین کو صرف تقریر سننے پر نامزد کردیاگیا ۔سیشن کورٹ میں جب ایف آئی آر
کے اندراج بارے بتایا گیا تو لیگی رکن اسمبلی عظمیٰ بخاری نے پریشان ہوکر پوچھا ایف آئی آر میں میرا نام تو نہیں ہے؟ جیسے ہی بتایا گیا کہ نام موجود ہے تو وہ فکر مند ہوگئیں ۔ 11 دفعات کی سزائوں کا مجموعہ 115 سال قید اور پچاس لاکھ روپے سے زائد جرمانہ بنتاہے۔یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مجرمانہ سازش، بغاوت اور لوگوں کو اکسانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا تھاجبکہ ایف آئی آر میں مریم نواز سمیت دیگر لیگی قائدین کو بھی نامزد کیا گیا ۔صوبائی دارالحکومت لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی، 121، 121 اے، 123 اے، 124 اے، 153 اے اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 تحت مقدمہ درج کیا گیا۔مذکورہ مقدمے میں موقف اپنایا گیا کہ ‘مجرم نواز شریف پاکستان کی اعلی عدالتوں سے سزا یافتہ ہے اور ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات اعلی عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔
جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں جان بچانے اور علاج معالجہ کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی اور حکومت وقت نے مخالفت نہیں کی۔ایف آئی آر کے متن کے مطابق تاہم اب سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن
میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں۔ایف آئی آر کے مطابق مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی
بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے۔تھانے میں درج مقدمے کے متن میں موقف اپنایا گیا کہ نواز شریف کی تقاریر کا بنیادی مقصد پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنا اور پاکستان کو
روگ اسٹیٹ قرار دینا ہے۔ایف آئی آر کے مطابق نواز شریف کے آل پارٹیز کانفرنس، مسلم لیگ کی سینٹرل ورکرز کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے خطابات میں شریک رہنمائوں راجا ظفر الحق، سردار ایاز صادق، شاہد خاقان عباسی، خرم دستگیر، جنرل (ر)عبدالقیوم، سلیم ضیا
اقبال ظفر جھگڑا، صلاح الدین ترمذی، مریم نواز شریف، احسن اقبال، شیخ آفتاب احمد، پرویز رشید، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، بیگم نجمہ حمید، بیگم ذکیہ شاہ نواز، طارق رزاق چوہدری نے تقاریر کی تائید کی۔سردار یعقوب نثار، نوابزدہ چنگیز مری، مفتاح اسماعیل ،محمد زبیر، عبدالقادر بلوچ
، فاطمہ خواجہ، مرتضی جاوید عباسی، مہتاب عباسی، جاوید لطیف، مریم اورنگزیب، عطا للہ تارڑ، چوہدری برجیس طاہر، چوہدری محمد جعفر اقبال، عظمی بخاری، شائستہ پرویز ملک، سائرہ افضل تارڑ، بیگم عشرت اشرف، وحید عالم، راحیلہ درانی، دانیال عزیز سمیت ویڈیو لنک
پر شریک رہنماں راجا فاروق حیدر، خواجہ سعد رفیق، امیر مقام عرفان صدیقی و دیگر نے نواز شریف کی تقاریر کو سن کر اس کی تائید کی۔مختلف دفعات کے تحت درج مقدمے کے مطابق نواز شریف نیب قوانین کے تحت ایک سزا یافتہ مجرم ہے اور نواز شریف کا مقصد میڈیا پر براہ راست
پاکستان کے مقتدر اداروں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر کرنا اور عوام بالخصوص اپنے پارٹی اراکین کو اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانا ہے جبکہ وہ لندن سے بیٹھ کر میڈیا کے ذریعے عوام کو کھلے عام بغاوت کی ترغیب دے رہا ہے تاکہ عوام ایک منتخب جمہوری حکومت کے
خلاف اعلان بغاوت کریں تاکہ ملک میں آگ و خون کا کھیل کھیلا جاسکے۔مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق نواز شریف کی اس طرح کی تقاریر کا مقصد بھارتی افواج کا کشمیر پر قبضے کی کارروائیوں اور مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے توجہ ہٹانا ہے، مزید یہ کہ اس سے بالواسطہ
طور پر پاکستان کے ساتھ دشمنی کرتے ہوئے اپنے دوست بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فائدہ پہنچایا جاسکے اور عالمی برادری میں پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کو بدنام کیا جاسکے۔نواز شریف بیون ملک بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان اور ریاستی اداروں
کو بدنام کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے قوانین کیس سزا یافتہ مجرم کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنی ضمانت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے میڈای کے ذریعے عوام کو حکومت اور فوج کے خلاف بغاوت پر اکسائے۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مریم نواز شریف و دیگر مندرجہ بالا مسلم لیگ (ن)
کے رہنمائوں کا نواز شریف کی تقاریر کی تائید کرنا قانون کی گرفت میں آتا ہے، لہذا نواز شریف اور مسلم لیگ (ن)کے رہنما کے خلاف تعزیرات پاکستان اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا)کی دفعات کے تحت کارروائی کی جائے۔