اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سچ یہ ہے کہ عمران خان کے اندر بھی طاقت کو للکارنے والا چھوٹا سا نوازشریف پیدا ہوچکا ہے جو کبھی کھل کر طاقت کوللکارتا ہے تو کبھی مصلحت کے باعث خاموش ہوجاتاہے۔روزنامہ جنگ میں شائع اعزازسید کے کالم کے مطابق مخدوش معاشی صورتحال کے باعث عمران خان اس وقت ملک میں غیر مقبول ہوچکے ہیں ان کی یہی غیرمقبولیت ان کے اقتدار سے
نکلنے کی سرگوشیوں کو جنم دے رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مارچ2021 میں سینیٹ انتخابات کے بعد ایک سنجیدہ کوشش ضرور کی جائے گی اس پر شاید سوچ بچار جاری ہے۔ عمران خان کو اقتدارسے نکالنے کی خواہشمند اب صرف اپوزیشن ہی نہیں ہے بلکہ کئی طاقتور بھی ہیں، واضح راستہ مگر سجھائی نہیں دے رہا۔عمران کی اقتدارسے بے دخلی دو بنیادی نکات کے اردگرد گھومتی ہے۔ اول یہ کہ متبادل کون ہوگا ؟ دوئم یہ کہ اقتدارسے بے دخلی پرعمران خان کا ردعمل کیا ہوگا؟عمران کے متبادل کے طورپر تین راستے واضح ہیں۔ اول یہ کہ ان ہائوس تبدیلی کے ذریعے پی ٹی آئی کے اندرسے نیا وزیراعظم لایا جائے۔ دوئم یہ کہ پارلیمنٹ کے اندرسے اپوزیشن کے کسی قابل قبول چہرے کو وزیراعظم بنا دیا جائے اور سوئم یہ کہ ملک میں نئے انتخابات کروا دئیے جائیں۔پارٹی کے اندرسے تبدیلی کا پہلا آپشن شاید عمران خان کو قبول نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ کے اندرسے اپوزیشن کو موقع دینے کا آپشن بلاول بھٹوکی سربراہی میں پیپلز پارٹی کو قبول ہے مگر پنجاب سے مسلم لیگ ن کے تعاون کے بغیریہ ممکن نہیں۔سب سے آخری یعنی عام انتخابات کا آپشن مسلم لیگ ن کو قبول ہے مگریہ شاید اس لیے قابل عمل نہیں کہ ملکی خزانہ خالی ہے اورملک کی کمزورمعیشت عام انتخابات کے اخراجات جھیلنے کے قابل نہیں۔دوسرا اہم سوال عمران خان کے ردعمل سے متعلق ہے۔ یہ سوال عمران کے متبادل سے زیادہ اہم ہے۔ اس پردو خیال ہیں اول یہ کہ عمران خان خاموشی سے گھرچلے جائیں گے اوردوسرا یہ کہ عمران خان بھرپورردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ میں دوسرے خیال کے حامیوں میں شامل ہوں۔