کراچی(این این آئی)آبی اور تعلیمی ماہرین نے وفاقی حکومت کی طرف سے اعلانیہ دیامیر بھاشا ڈیم منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بنانے سے انڈس ڈیلٹا میں موجود انسانوں اور دیگر جانوں کو بہت نقصان پہنچے گا۔پاکستان فشر فوک فورم کے زیراہتمام ہونے والی آن لائن ورچوئل کانفرنس میں ملک بھر سے پانی اور ماحولیات کے ماہرین نے تبادلہ خیال کیا۔پانی اور ماحولیات کے عالمی شہرت یافتہ ماہر حسن عباس نے
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی60 فیصد عوام پینے کا صاف پانی استعمال نہیں کررہی، وہ زہریلا پانی بھی پی رہی ہے جب کہ بھاشا ڈیم یہ مسائل حل نہیں کرسکتا، انہون نے کہا کہ بھاشا ڈیم سے بننے والی بجلی بھی بہت مہنگی ہوگی اور کوئی خریدار نہیں ملے گا۔فشرفوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ نے کہا کہ دریا ئے سندھ کے پانی کے بہا ؤکو روک کر دریائے سندھ اور ڈیلٹا کے ماحولیاتی نظام اور وہاں کے لوگوں کو سماجی اور اقتصادی طور پر مکمل تباہی کے کنارے پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ یہی پانی جو کبھی مچھلی کے نسل کو بڑھانے کیلئے مٹی لاتا تھا، جھیلوں کا پیٹ بھرتا تھا اور اس خطی کی ذرعی زمینیں کو سیراب کرتا تھا، وہ اب بڑے پیمانے پر کم ہوچکا ہے یا پھر مکمل ختم ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیلٹا میں میٹھے پانی کا بہا کم ہونے سے مختلف آبی بہا، کریکس اور جھیلیں نمکین ہوچکی ہیں اور زیر زمین پانی کے ذخائر بھی نمکین ہوگئے ہیں۔ نتیجے میں مقامی لوگوں کیلئے موجود کنوے اور تالاب کا پانی بھی پینے کے لائق نہیں رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ باہر سے پانی خریدنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ زمینیں نمکیات کی وجہ سے کھیت بھی تباہ ہوچکے ہیں۔ کسی دور میں تمر کے جنگلات کی موجودگی کی وجہ سے عروج پر پہنچی ہوئی چھوٹے پیمانے والی ماہی گیری آج زوال کا شکار بن گئی ہے اور ماضی میں خوشحال ڈیلٹا کے لوگ لگاتار ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں سب کچھ ہوتے ہوئے
بھی وفاقی حکومت بھاشا اور دیگر ڈیم بناکر دریائے سندھ سے جڑے ہوئے تمام جانداروں کو مزید تباہ کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ” ڈیم کا مطلب طاقت، جس کے پاس پانی ہے اس کے پاس طاقت ہے “۔ حالیہ عمران خان کی وفاقی حکومت نے بھی کالونیل سوچ کے ساتھ دریائے سندھ پر دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا سلطنتی فیصلا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ پر پہلے جو ڈیم اور بیراج بنے ہیں انہوں نے ڈیلٹا کے تین اضلاع ٹھٹھہ، سجاول
اور بدین کو 40 لاکھ ایکڑ ذرعی زمین سمندر برد ہوچکی ہے، اور 12 لاکھ ڈیلٹا کے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور دریائے سندھ پر ڈیم اور بیراج بننا اور کوٹری سے نیچے پانی نہ جانے کی وجہ سے تقریبا” 20 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ہمارا موقف یہی ہے کہ دریائے سندھ پر اب کسی بھی قسم کا کٹ مارنا، ڈیم بنانا اور دریا کا رخ موڑنا ، دریا کی ماحولیات کے حوالے سے اور دریا کی زندگی کے حوالے سے انتہائی نقصانکار ثابت ہوگا۔ اس
لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ بھاشاڈیم بننے سے دریائے سندھ سے جڑے تمام جاندار اور ماحولیات اور بھی زیادہ خراب ہوگی۔ سیاسی بنیادوں پر بندھے ایسے فیصلے اور پالیسیاں بے آوازاور ڈیلٹا کے لوگوں کیلئے مزید سنگین اور نقصانکار ثابت ہوگا۔فشرفوک فورم کے چیئرمین نے مزید کہا کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فطرت اور دریاں کو فتح کرنے کے بجائے دریاں کو زندہ ہستی سمجھ کر دریاں کو فطری بہا کا قانونی حق دیں اور فطرت سے
ہارمنی میں رہنا سیکھیں۔مہران یونیورسٹی کے پانی ماہر پروفیسر ڈاکٹر الطاف سیال نے کہا کہ انڈس ڈیلٹا میں 80 سیکڑو بہا اور مٹی ختم ہوگئی ہیجس کی وجہ سے سمندر کے پانی میں اضافہ آیا ہے ایک ابیاس کے مطابق انڈس ڈیلٹا 90 سیکڑو سوکھ گیا ہے پاکستان کا پورا آبپاشی کا نظام موثر نہیں ہے تقریبا” 60 سیکڑو پانی فارم تک پہنچتے ضائیع ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے ڈیم بنانے کے بجائے پانی کے انتظام کو بہتر بنایا جائے تو اچھا ہے
کیوں کہ ڈیم بنانے سے انڈس ڈیلٹا میں پانی کا بہا مزید کم ہوجائے گا۔انہوں نے مشورہ دیا کہ کئنالوں اور واٹرکورسوں کو پکا کیا جائے، مگر اس میں ایسے علائقوں کو شامل نہ کیا جائے جہاں زیرزمین میٹھے پانی کے ذخائر ہیں ۔ انہوں نے 1991 ع والے پانی معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دیا، کہ نیچے والے علائقوں کے حقوق کو محفوظ بنا سکیں۔سندھ ذرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے پروفیسر محمد اسماعیل کنبر نے اپنی پریزنٹیشن
میں کہا کہ انڈس ڈیلٹا کے لوگ، جن کا ڈریائے سندھ کے پانی پر تاریخی حق ہے ڈیموں کی تعمیرات کی کافی قیمت ادا کرچکے ہیں جس کا ازالا مشکل ہے ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ پانی والے معاہدے پر عمل کیا جائے اور کوٹری بئراج کے نیچے 27 سے 35 ایم ای ایف پانی کے بہا کو یقینی بنایا جائے تاکہ انڈس ڈیلٹا کی معیشت اور ماحولیات زندہ رہ سکے۔آن لائن زوم کانفرنس میں اسلام اباد کراچی حیدراباد سندھ یونی ورسٹی ٹنڈو جام ایگری کلچر یونی ورسٹی کہ پروفیسرز کہ علاوہ بدین ٹنڈو محمد خان سجاول ٹھٹھہ اور دیگر اضلاع سے آن لائین شرکا نے بڑی تعداد میں کانفرنس میں شرکت کی۔