لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئرصحافی و نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک کالم’’یہ استاد نہیں جانور ہیں!‘‘ میں لکھتے ہیں ۔۔۔ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیم پر تو بڑا زور ہے لیکن قوم کی بچیوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں جو ہوتا ہے، اس بارے میں ایک حالیہ میڈیا رپورٹ پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ معاشرے کی تنزلی اس حالت کو پہنچ چکی ہے کہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی بچیاں مرد اساتذہ تک کے
ہاتھوں محفوظ نہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک این جی او نے اپریل 2018ء میں ایسی خواتین جنہیں ورک پلیس (Workplace) پہ ہراساں کیا جاتا ہے، کے لیے ایک ہیلپ لائن شروع کی۔ اس این جی او کو تقریباً 21ہزار شکایتیں موصول ہوئیں جن میں سے 17ہزار شکایتیں مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والی طالبات کی طرف سے درج کروائی گئیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے برعکس سرکاری جامعات کی طالبات کی طرف سے یہ شکایات زیادہ موصول ہوئیں۔ جب ان میں سے کئی طالبات کی طرف سے اپنی اپنی جامعہ کی انتظامیہ سے شکایت کی گئی کہ اُنہیں مرد اساتذہ کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے تو اس سلسلے میں انتظامیہ کی طرف سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کے اراکین میں بھی استاد کی روپ میں ایسے بھیڑیے شامل تھے جنہوں نے طالبات کی مدد کے بجائے اُنہیں جنسی طور پر ہراساں کیا۔رپورٹ میں ایک طالبہ کا انٹرویو بھی شامل تھا جس کا کہنا تھا کہ بچپن سے اُسے بتایا گیا تھا کہ استاد والدین کی طرح ہوتے ہیں، اس لیے اُن کا احترام کیا جانا چاہیے۔ طالبہ کا کہنا تھا کہ جب اُس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اسے استاد کا وہ مکروہ چہرہ نظر آیا جو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ راولپنڈی کی ایک اہم سرکاری درسگاہ سے تعلق رکھنے والی اس طالبہ نے بتایا کہ اُس کا استاد اُس پر دبائو ڈالتا رہا کہ وہ اُس سے دوستی کرے،وہ طالبہ کو رات گئے فون کرتا اور میسج بھیجتا لیکن جب اُس نے کوئی مثبت جواب نہ دیا تو اُسے امتحان میں ڈی گریڈ دے دیا (یعنی بُرے نمبر دیے)۔
طالبہ نے بتایا کہ وہ اکیلی نہیں بلکہ اُس جیسی کئی دوسری بچیاں بھی ہیں جنہیں مرد اساتذہ کی طرف سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ایسے واقعات کے لیے بنائی گئی انکوائری کمیٹیاں اساتذہ کے حق میں ہی رپورٹ دیتی ہیں جس کا مقصد تعلیمی ادارے کو بدنامی سے بچانا ہوتا ہے۔مگر ایسے حالات میں ہراسانی کے واقعات بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔
صرف خواتین کو ہراسانی سے بچائو کے لیے بنائے گئے وفاقی محتسب کو 2018کے مقابلے میں 2019میں تقریباً دو گنا زیادہ شکایتیں موصول ہوئیں، سب سے زیادہ شکایتیں پنجاب سے موصول ہوئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے زیادہ تر واقعات سمیسٹر سسٹم اور اُس نظام سے جڑے ہیں جہاں بچیوں کو پروجیکٹ اور اسائنمنٹ وغیرہ کے نمبروں کے لیے متعلقہ استاد کا محتاج بنا دیا جاتا ہے
یہ بڑی پریشانی کے ساتھ ساتھ انتہائی دکھ اور شرمندگی کی بھی بات ہے کہ اب حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اساتذہ تک اعتبار کے قابل نہیں رہے اور اُن میں بھی انسان نما جانور اور درندے بڑی تعداد میں چھپے بیٹھے ہیں۔استاد تو بچوں اور نئی نسل کی تربیت کا ذریعہ ہوتا ہے لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ اساتذہ میں کیوں ایسے بھیڑیے شامل ہو گئے ہیں جن کے شر سے پڑھنے والے بچیاں تک محفوظ نہیں۔
اس معاملے پر حکومت، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تنظیموں کو بھی فکر مندی کے ساتھ ایسے حل تلاش کرنے چاہئیں کہ پڑھنے والی تمام بچیوں کو کسی بھی قسم کی جنسی ہراسانی سے بچایا جا سکے اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسا ماحول قائم کیا جائے کہ مرد چاہے وہ استاد ہو یا طالبعلم، کا خواتین طالبات کے ساتھ اکیلے ملنا ممکن نہ ہو اور کوئی انہیں بلیک میل نہ کر سکے۔
امتحان اور اسائنمنٹ کا نظام بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بھی طالبعلم یا طالبہ کسی بھی استاد کی طرف سے کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ یا بغض کا شکار بنے۔جہاں تک طالبات کی بات ہے تو اُنہیں چاہیے وہ کسی بھی قسم کی غیر مناسب حرکت کو قطعی طور پر برداشت نہ کریں اور ہراسانی کی صورت میں نہ صرف والدین کو بتائیں بلکہ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ سے بھی فوری شکایت کریں۔یہ امر نہایت قابلِ افسوس ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں طالبات کی طرف سے شکایات کے باوجود بہت کم ایسے کیس سننے کو
ملتے ہیں جہاں ہراسانی کے مجرم استاد کو سزا ملی ہو۔اگر چھوٹے بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے والے درندوں کو سرِعام پھانسی دی جانی چاہیے تو استاد کے روپ میں چھپے جانوروں کو بھی نوکریوں سے نکال کر اُن کی میڈیا کے ذریعے خوب تشہیر کی جانی چاہئے تاکہ ایسے لوگ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ایسے جانور اور درندے انسانی حقوق کے نام پر کسی رعایت کے مستحق نہیں۔