اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)جاوید چودھری اپنے ایک کالم ’’ہم ایک بے وفاقوم ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔شعیب اختر کے کیریئر میں تین چیزیں نمایاں ہیں ،ایک اس کی جسمانی ساخت وہ فلیٹ فٹڈ اور ہائپر ایکسٹینسو جوائنٹس کا شکار ہے، دوسری اس کی معجزاتی کامیابیاں اور تیسری اس کے خلاف سازشیں، میں نے کل عرض کیا تھا شعیب نے اپنی شدت اور حوصلے سے اپنی جسمانی خامیوں پر قابو پالیا
اور وہ دنوں میں کرکٹ کی دنیا میں اس مقام پر جا پہنچا جس کی ہزاروں لاکھوں کرکٹر زندگی بھر خواہش کرتے رہتے ہیں۔ شعیب اختر نے اپنی ہمت سے نہ صرف اپنا وجود منوایا بلکہ وہ پاکستانی ٹیم کی کامیابی کا بنیادی عنصربھی بن گیا اور دنیا بھر کے کرکٹرز اور ماہرین نے کہنا شروع کردیا ’’جس ٹیم میں شعیب اختر نہ ہو وہ ٹیم میچ نہیں جیت سکتی‘‘ پاکستانی عوام کی بھی یہی رائے تھی۔ عوام کی یہ رائے اور ماہرین کے خیالات پاکستان کرکٹ بورڈکی قیادت کے دل میں شعیب اختر کے خلاف بغض پیدا کرتے رہے اور اس کے حاسدین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا،شعیب اختر پبلک ریلیشنگ کا بندہ نہیں تھا‘ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والا شخص تھا، وہ لوگوں سے فاصلے پر رہتا تھا اس کی اس عادت نے بھی اسے نقصان پہنچایا،وہ پاکستان کرکٹ بورڈ ‘ ریٹائر کھلاڑیوں اور کرکٹ کے ماہرین سے پبلک ریلیشنگ نہ کرسکا چنانچہ اس کے خلاف حسداور نفرت کا لاوا جمع ہوتا چلا گیا۔ یہ لاوا 15 اکتوبر 2006ء کو پھٹا اور پاکستان کرکٹ کی سنہری روایات کو جڑوں سے ہلا گیا۔ پاکستان اور پاکستان کے کھلاڑی پوری دنیا میں بدنام ہوگئے۔15 اکتوبر 2006ء اچانک طلوع نہیں ہوا‘ یہ سازشوں کا ایک تسلسل ہے جو پچھلے دس برس سے شعیب کے خلاف جاری تھا، شعیب اختر اپنی طبی خامیوں کے باعث اکثر جسمانی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتا تھا وہ 1999ء سے 2006ء تک 8 مرتبہ شدید
جسمانی عارضوں کا شکار ہوا، 1999ء میں اس کا بایاں کندھا زخمی ہوگیا، 2000ء میں اس کے گھٹنے کے پیچھے 4 انچ لمبا زخم آگیا، اسی سال اس کی گیارہویں اور بارہویں پسلی ٹوٹ گئی، 2001ء میں اس کے کندھے کا جوڑ کھل گیا، 2002ء میں اسے شدید زخم آئے، 2005ء میں اس کا بازو فریکچر ہوگیا، 2006ء کے شروع میں اس کے ہاتھ کے مسلز پھٹ گئے اور 2006ء کے درمیان میں اس کی کمر کے
نچلے حصے میں درد رہنے لگا‘اس کی ہر بیماری اس کے خلاف سازشوں اور افواہوں کا طوفان لے کر طلوع ہوتی تھی اورکرکٹ بورڈ کی قیادت اس کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع کردیتی تھی لیکن اللہ کے کرم سے وہ اس بحران سے بچ نکلتاتھا، شعیب کے موجودہ بحران کا آغاز نومبر 2005ء میں ہوا‘12نومبر 2005ء کو برطانیہ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی اور اس نے 21 دسمبر 2005ء تک پاکستان میں میچ کھیلے‘
شعیب اختر نے تین ٹیسٹ میچوں میں 17 وکٹیں حاصل کیں اور وہ پاکستان کی کامیابی کا باعث بنا‘اس سیریز کے دوران وہ زخمی ہوگیا‘شعیب اختر کے کیریئر کا دوسرا بحران جنوری 2006ء میں شروع ہوا‘ ان دنوں بھارت کے ساتھ پاکستان کا نیا نیا سفارتی رومانس شروع ہوا تھا‘ پاکستان نے بھارت کے ساتھ بس‘ ٹرک اور ٹرین ڈپلومیسی کے ساتھ کرکٹ ڈپلومیسی کا بھی فیصلہ کیا‘ بھارت کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی‘
پاکستان نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے فلیٹ پچز بنائیں‘ شعیب کو زخمی حالت میں کھیلنے پر مجبور کیا گیا‘ شعیب نے کوشش کی لیکن اس کوشش کے دوران اس کے زخموں میں اضافہ ہوگیا اور وہ مکمل طور پر ان فٹ ہوگیا‘ اس کی انجری اس کے گھٹنے تک چلی گئی اور وہ چلنے تک سے مجبور ہوگیا، اس دوران ایک بار پھر اس کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع ہوگیا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے بعض
سینئر لوگوں نے شعیب کے کیریئر کے خاتمے کی خبریں اڑانا شروع کردیں۔شعیب 28 فروری2006ء کو گھٹنے کے علاج کیلئے آسٹریلیا چلا گیا‘ آسٹریلیا کے سرجن ڈیوڈینگ نے شعیب اختر کے گھٹنے کی آرتھو سکوپک سرجری کی، سرجری کامیاب ہوگئی اور شعیب بڑی تیزی سے روبہ صحت ہونے لگا، شعیب اختر جب ڈاکٹر ڈیوڈینگ کے پاس زیر علاج تھا تواس کی جلد صحت مندی کے لیے اسے
’’ہائی پوٹینس‘‘ دوائیں دی گئی تھیں، یہ دوائیں کیا تھیں، شعیب ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، اگست 2006ء میں پاکستان کی ٹیم برطانیہ کے دورے پر گئی،اس وقت پاکستان کے تینوں بائولر شعیب اختر‘ محمد آصف اور رانا نوید الحسن ان فٹ تھے‘ یہ تینوں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کی بیک بون تھے۔ ان تینوں کی غیر موجودگی کے باعث پاکستان ٹیسٹ میچ ہار گیا، یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے انتہائی خطرناک
صورتحال تھی، حکام کو محسوس ہوا اگر ان کے تینوں بائولر جلد تندرست نہ ہوئے تو وہ 2006ء کے تمام میچ بھی ہار جائیں گے اور 2007ء کا ورلڈ کپ بھی کھٹائی میں پڑ جائے گا‘ اعلیٰ حکام نے ڈاکٹروں کو حکم دیا ’’ان کھلاڑیوں کو ہر قیمت پر جلد سے جلد فٹ کیا جائے‘‘ اس حکم کے تحت ڈاکٹروں نے شعیب اختر اور محمد آصف کو طاقت کے ٹیکے لگانا شروع کردیئے‘ان ٹیکوں کی ’’برکت‘‘ سے
دونوں کھلاڑی ستمبر کے شروع میں اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے، محمد آصف نے اینٹی ڈوپنگ کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں ان ٹیکوں کا ذکر بھی کیا تھا ‘اس کا کہنا تھا اسے برطانیہ کے دورے کے دوران تین ٹیکے دیئے گئے تھے جبکہ شعیب اختر کو ایک خفیہ سرکاری ذریعے نے ایسا بیان دینے سے روک دیا۔اکتوبر2006ء میں پاکستان نے میچ کھیلنے کیلئے بھارت جانا تھا‘ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارباب پشت و کشاد محمد آصف اور شعیب اختر کو لگائے جانے والے ٹیکوں سے واقف تھے لہٰذا 25 ستمبر سے 2
اکتوبر 2006ء تک تمام کھلاڑیوں کے خون کے نمونے لیے گئے اور یہ نمونے ڈوپنگ ٹیسٹ کے لیے ملائشیا بھجوا دیئے گئے۔ 12 اکتوبر 2006ء کو ٹیسٹوں کی رپورٹ آگئی‘اس رپورٹ میں محمد آصف اور شعیب اختر کے خون میں ممنوعہ عنصر ’’نینڈرولون‘‘ نکل آیا۔ اس وقت پاکستان کی ٹیم بھارت پہنچ چکی تھی، خون کی یہ رپورٹ خطرناک تھی، اگر ہم فرض کرلیں اس معاملے میں محمد آصف اور
شعیب اختر قصور وار ہیں اور کرکٹ بورڈ ممنوع ادویات کے استعمال سے واقف نہیں تھا تو بھی عقل کا تقاضا تھا پاکستان کرکٹ بورڈیہ رپورٹ تصدیق کے لیے روک لیتا اور محمد آصف اور شعیب اختر کو کسی بہانے واپس پاکستان بلا لیتا‘ اس سے پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی عزت بھی بچ جاتی اور ہمارے قومی ہیروز کا کیریئر بھی محفوظ رہتا لیکن بورڈ نے خاموشی کے بجائے اس خبر کو عالمی شکل دے دی ،
دونوں کھلاڑیوں کو معطل کیا اورانہیں بے عزت کر کے پاکستان واپس بلا لیا، حکومت نے اس کے بعد اینٹی ڈوپنگ کمیشن بنایا، شاہد حامد، انتخاب عالم اور ڈاکٹر وقار احمد کو اس کا ممبر بنایا، کمیشن نے 27‘28 اکتوبر اور یکم نومبر کو ’’ملزمان‘‘ کے بیانات سنے اور ان دونوں کھلاڑیوں کے خلاف فیصلہ دے دیا، شعیب اختر پر دو سال اور محمد آصف پر ایک سال کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی گئی
جس کے بعد پورے ملک اور پوری دنیا میں ’’کرکٹ لوورز‘‘ کے دل ٹوٹ گئے۔ہم اب آتے ہیں اس فیصلے کے پس منظر کی طرف، جب کمیشن کی کارروائی چل رہی تھی تو شعیب کو باقاعدہ ٹریپ کیا گیا، اس سے کہا گیا وہ یہ بیان دے کہ وہ حکیموں کی دوائیں استعمال کرتا رہا تھا‘اسے کہا گیا دنیا میں یونانی ادویات کی پڑتال کا کوئی نظام موجود نہیں لہٰذا اسے شک کی بنیاد پر معاف کر دیا جائے گا، شعیب اس ٹریپ میں آگیا
اور اس نے یونانی ادویات کے استعمال کا اعتراف کرلیا، اس کے بعد اسے گرین سگنل دے دیا گیا اور اس نے باقاعدہ پریکٹس بھی شروع کردی لیکن فیصلہ اس کے خلاف دے دیا گیا، اس فیصلے کے بارے میں تین قسم کی افواہیں پائی جاتی ہیں‘پہلی افواہ کے مطابق جن دنوں کمیشن کی کارروائی چل رہی تھی ان دنوں باجوڑ کا واقعہ پیش آگیا، اس واقعے میں باجوڑ کے 83 طالب علم جاں بحق ہوگئے، حکومت نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی جس کے نتیجے میں حکومت کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوگیا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے حکومت کو باجوڑکے واقعے سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے کسی بڑے ایشو کی ضرورت تھی لہٰذا اس وقت محمد آصف اور شعیب اختر کی قربانی دینے کا فیصلہ ہوا، ان دونوں کی خبر شائع ہوئی اور لوگوں کی توجہ باجوڑ سے ہٹ گئی، دوسری افواہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف تھے، ڈاکٹر نسیم اشرف 8 اکتوبر 2006ء کو بورڈ کے چیئرمین بنے تھے اورانہیں عالمی میڈیا میں جگہ پانے اور بڑے بڑے انٹرویوز دینے کے لیے کسی ایشوکی ضرورت تھی
لہٰذا شعیب اختر اور محمد آصف کو ڈاکٹر صاحب کی ’’انٹری‘‘ بنا دیا گیا، اینٹی ڈوپنگ کمیشن کا فیصلہ آیا اور ڈاکٹر نسیم اشرف پوری دنیا میں مشہور ہوگئے، تیسری افواہ جواء ہے‘ کرکٹ کے بعض جغادری ماہرین کا کہنا ہے اس معاملے میں جوئے کے عنصر کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، مارچ 2007ء میں ورلڈ کپ شروع ہورہا ہے اور دنیا جانتی ہے ہماری ٹیم سردست ان دونوں کھلاڑیوں کے بغیر ورلڈ کپ نہیں جیت سکتی
لہٰذا دونوں کھلاڑیوں پر جواء شروع ہوگیا اور اس جوئے کے نتیجے میں دونوں کھلاڑی سیاست کی وکٹ پر آئوٹ ہوگئے، سرے دست پر تینوں افواہیں محض سرگوشیاں اور خدشات ہیں اور ان میں کون سی بات درست ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے یا اس سازش کے جولاہے لیکن ایک بات سچ ہے وہ شعیب اختر جس نے ان تھک محنت اور اپنے اٹل ارادے سے اپنی معذوری کو شکست دے دی تھی، وہ شعیب اختر اور
اس کا ٹیلنٹ سازش کے ہاتھوں کلین بولڈ ہو گیا۔میں جب بھی شعیب اختر کی تصویر دیکھتا ہوں تومجھے محسوس ہوتا ہے ہم ایک بے وفا اور احسان فراموش قوم بنتے جارہے ہیں، ہمارے پاس ڈاکٹر عبدالقدر ہوں یا پھر شعیب اختر ہم اپنے ہر ہیرو کو بے توقیر اور رسوا کردیتے ہیں‘ ہم اپنے ملک میں پیدا ہونے والے ہر قدآور شخص کے پائوں کاٹ دیتے ہیں‘ہم اپنے ہر محسن کو حسد اور انا کی صلیب پر چڑھا دیتے ہیں۔