جمعہ‬‮ ، 11 اکتوبر‬‮ 2024 

سپریم کورٹ میں اٹھائے گئے کئی سوالات کا جواب ہمارے قانون میں موجود نہیں، معروف قانون دان نے آرمی ایکٹ و قانون میں ترمیم بارے اہم بات کر ڈالی

datetime 27  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن)ماہر قانون دان بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ وقانون میں ترمیم کی جانی چاہئے کیونکہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے جو سوالات سپریم کورٹ نے اٹھائے ہیں ایسے کئی سوالات کا جواب ہمارے قانون میں موجود نہیں،مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کیلئے قانون میں ترامیم کی گنجائش ہے اس سے قانون مزید مضبوط ہوتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ فروغ نسیم کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا جو پروسیجر عدالت میں پیش کیا گیا اس کے تحت ہی عدالت نے کمزوریوں کو اٹھایا اور میں سمجھتا ہوں کہ وزارت داخلہ کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ جو نوٹیفکیشن جاری ہوا اس پر غور کرتی۔انہوں نے کہا کہ فروغ نسیم کے علاوہ بھی کچھ لوگوں کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس پورے پراسس کو دیکھتے۔وزیراعظم سیکرٹریٹ کی بھی یہی ذمہ داری تھی اور اس معاملے میں کسی ایک شخص یا ادارے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔بیرسٹر سیف نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں آرمی چیف کی تعیناتی کا واضح طریقہ کار ہے کہ صدر مملکت آرمی چیف کی تعیناتی یا توسیع کرسکتے ہیں،یہ ان کا اختیار ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بدھ کی سماعت میں جو سوالات اٹھائے وہ درست ہیں اور ان سوالات کی گنجائش بنتی ہے جو موجودہ ہمارے قوانین ہیں،جن میں آرمی ایکٹ بھی ہے تاہم کئی سوالات ہیں جن کا جواب آرمی ایکٹ میں موجود نہیں ہے۔آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے سوال پر بریسٹر سیف نے کہا کہ پہلے ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی مگر موجودہ حالات میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کی روشنی میں قانون میں ترمیم ہونی چاہئے تاکہ مستقبل میں اس قسم کی ممکنہ صورتحال اگر پیدا ہو تو اس کے لئے قانونی طریقہ کار وضع ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ قانون اسی طرح کے واقعات سامنے آنے کے بعد ہی بنتا اور اپ ڈیٹ ہوتا ہے،پہلے ایسی کئی صورتحال قانون بنانے والوں کے ذہن میں نہیں ہوتی اور قانون میں گنجائش ہے کہ اس میں ترامیم کی جائے اور قانون میں ترامیم سے یہ مزید مضبوط ہوتا ہے نہ کہ اس سے قانون کو کوئی نقصان ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ ایاس نہیں کرتی تو صدر کے پاس آرڈیننس کا اختیار ہے وہ بھی ایسا کرسکتے ہیں اور صدر اگر آرڈیننس بناتا ہے تو پھر اس کی پارلیمنٹ سے توثیق لی جاسکتی ہے جس کے بعد وہ ایکٹ بن جاتا ہے لیکن اگر کوئی ایسا آرڈیننس ہو جو آئین کی کسی شق سے متصادم ہو یا انسانی حقوق کی پارلیمانی ہوتی ہو تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے،مگر یہاں پر کوئی ایسی صورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملہ کو جلد سے جلد حل ہونا چاہئے کیونکہ یہ معاملہ بہت حساس ہے اور آرمی اس سے متاثر ہورہی ہے اور ہمارا دفاع بھی متاثر ہوسکتا ہے۔



کالم



ڈنگ ٹپائو


بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی…

کوفتوں کی پلیٹ

اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…