اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم ’’‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔لوگوں کو اب ان پر ترس اور حکومت پر غصہ آ رہا ہے‘ رہا سہا بھرم میاں نواز شریف کی ضمانت نے اڑا دیا‘ عمران خان 19 سال سے کہتے آ رہے تھے میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا‘ یہ پچھلے 14ماہ سے یہ بھی کہہ رہے تھے میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا لیکن پھر یہ اپنے ہاتھوں سے
میاں نواز شریف کو رہا کرنے پر بھی مجبور ہو گئے اور بیماری ہی سہی ”این آراو“ پر بھی مجبور ہو گئے‘ آصف علی زرداری‘ مریم نواز اور فریال تالپور کی ضمانت بھی اب زیادہ دور نہیں رہی۔یہ لوگ بھی چند دن بعد اپنی مرضی کے ہسپتال میں علاج کرا رہے ہوں گے لہٰذا حکومت نے گرد چھان کر کیا حاصل کر لیا‘ کتنے حجوں کا ثواب سمیٹ لیا؟ میرا خیال ہے حساب کا وقت آ گیا ہے‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں واقعی بیمار ہیں‘میاں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کنٹرول نہیں ہو رہے‘ یہ خون لگنے کے بعد چند گھنٹے نارمل رہتے ہیں لیکن پھر ان کے پلیٹ لیٹس گرنا شروع ہو جاتے ہیں‘ ان کے دانتوں سے بھی خون رس رہا ہے اور جسم پر خون کے دھبے بھی نظر آ رہے ہیں۔ڈاکٹروں نے ان کی کیموتھراپی بھی شروع کر دی ہے اور یہ بون میرو کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں لیکن یہ آپریشن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کے پلیٹ لیٹس ڈیڑھ لاکھ تک نہیں پہنچتے‘ ملک سے باہر جانا تو دور یہ سردست ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال بھی منتقل نہیں ہو سکتے‘ آصف علی زرداری کی رپورٹس بھی بہت خراب ہیں‘یہ عارضہ قلب‘ مہروں‘ ہائی بلڈ پریشر‘ شوگر اورپارکینسس میں مبتلا ہیں‘ حکومت عدالت میں ان کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت بھی نہیں کرے گی اور یہ انہیں کراچی شفٹ کرنے کی اجازت بھی دے دے گی۔کیوں؟ کیوں کہ حکومت
اچھی طرح جان چکی ہے اگر آصف علی زرداری کو راولپنڈی میں کچھ ہو گیا تو سندھ نفرت سے ابل پڑے گا اور وفاق اس نفرت کو کنٹرول نہیں کر سکے گا‘ میاں نواز شریف کی صحت کی مزید خرابی بھی حکومت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے گی اور اگر خدانخواستہ کسی ایک کی صحت مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے جڑ گئی تو آپ نتائج کا اندازہ خود کر لیجیے‘ پاکستان میں پچھلے دس برسوں سے
ان ہونیاں ہو رہی ہیں‘ ایک اور ان ہونی اس وقت وفاقی دارالحکومت کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور یہ ان ہونی مولانا فضل الرحمن کا مارچ ہے۔یہ مارچ بہر حال کسی نہ کسی کی تباہی کا باعث ضرور بن جائے گا‘ عمران خان اس کی زد میں آئیں گے یا پھر یہ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا باعث بن جائے گا ‘ مولاناکا اعتماد بہت خطرناک ہے‘ یہ پچھلے دو ماہ سے کہہ رہے ہیں
ہم عمران خان کا استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے‘ یہ اعتماد‘ حکومت کی پریشانی‘ مارچ کی اجازت مل جانا اور میاں نواز شریف کی ضمانت بآواز کہہ رہی ہے حالات اب وہ نہیں ہیں جو چند ماہ پہلے تک تھے۔چیزیں اور حالات کا رخ دونوں بدل رہے ہیں چناں چہ مولانا اگر پانچ دس لاکھ لوگوں کے ساتھ پنجاب میں داخل ہو گئے تو پھر بات ایک استعفے تک نہیں رہے گی‘ تین استعفے ہوں گے‘
مارچ کام یاب ہوتا ہے یا ناکام یہ فیصلہ چند دنوں میں ہو جائے گا تاہم یہ طے ہے مارچ کے بعد حالات یہ نہیں رہیں گے‘ حکومت اگر بچ بھی گئی تو بھی بری طرح معذور ہو چکی ہو گی اور یہ زیادہ دنوں تک اپنے قدموں پر کھڑی نہیں رہ سکے گی۔عمران خان قوم کی امید تھے‘ حکومت کو بہرحال کام یاب ہونا چاہیے تھا مگر افسوس ان لوگوں نے خود گڑھے کھودے اور یہ خود ہی ان میں جا گرے۔
آپ جب کندھوںپر بیٹھ کر آئیں گے تو پھر آپ کندھوں کی بے وفائی کا رونا نہیں رو سکتے‘ آپ کو بہرحال ایک صفحے پر رہنا پڑتا ہے‘ آپ کو بنانے والوں کی طاقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے مگر عمران خان اب لیڈر بن رہے تھے‘ یہ خود کو اتھارٹی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں چناں چہ ان کے ٹائروں سے ہوا نکلنا ضروری تھی اور یہ اب نکل رہی ہے‘ کندھوں پر چڑھنا عمران خان کی پہلی بڑی غلطی تھی‘ ان کی دوسری بڑی غلطی اپنی ساری توانائی اپوزیشن کو دبانے پر خرچ کردینا تھی۔