اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کردہ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق درخواست خارج کردی۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائے جانے کے تقریباً ایک سال بعد مریم نواز کو ان جائیدادوں کی جعلی’ ٹرسٹ ڈیڈ پیش کرنے پر 19 جولائی کو
طلبی کا نوٹس جاری کیا جس پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اسلام آباد کی احتساب عدالت پہنچی تھیں، عدالت میں ہونے والی سماعت کے پیش نظر خصوصی سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے اور پولیس اور رینجرز کی بڑی تعداد عدالت کے اطراف موجود رہی تھی۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کی، اس دوران ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل نیب سردار مظفر اور مریم نواز کے وکیل امجد پرویز پیش ہوئے۔دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی تھی۔انہوں نے کہا کہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں جبکہ یہ عدالت کا انتہائی خصوصی دائرہ اختیار ہے، اس پر عدالت میں موجود مریم نواز نے کہا کہ عدالت کویاد دلانے میں آپ کوایک سال کاعرصہ کیوں لگا؟۔اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہی عدالت کو بتارہا ہوں جس پر مریم نواز نے کہا کہ تھوڑی سی دیر کردی بس ایک سال، اس پر واپس جواب دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ دیر آئے درست آئے۔نیب پراسیکیوٹر کے جواب پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ہر وقت بندہ درست نہیں آتا، عدالت نے خود اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے جعلی دستاویز پر مریم نواز کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا، لہٰذا نیب اپیل کا حق فیصلے کے 30دن بعد کھو چکا ہے کیونکہ کارروائی کیلئے درخواست 30 دن کے اندر ہی دی جاسکتی تھی۔
اس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ جعلی ٹرسٹ ڈیٹ کا الزام فرد جرم سے حذف کردیا گیا تھا، نیب بتائے اب اس الزام پر مزید کیا چاہتے ہیں، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ فرد جرم سے الزام مریم نواز کی درخواست پر حذف کیا گیا، عدالت نے کہا تھا جعلی دستاویزات کا معاملہ فیصلے کے بعد دیکھا جائے گا۔اس دوران سردار مظفر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا حکم نامہ عدالت کو پڑھ کر سنایا
اور کہا کہ عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی وقت کارروائی کر سکتی ہے، عدالتی حکم نامہ موجود ہونے پر 30 دن میں کارروائی کی پابندی نہیں ہے بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے نیب کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردیا گیا۔احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ
یہ اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، یہ عدالت اس پر کوئی کارروائی نہیں کرسکتی، جب کبھی اپیل پر فیصلہ آئے گا تو اسے دیکھیں گے۔خیال رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے گزشتہ سال 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں بالترتیب 10 سال اور 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔اپنے فیصلے میں جج محمد بشیر نے قرار دیا تھا کہ
ایون فیلڈ جائیدادوں سے متعلق ملزمہ مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ بھی جعلی ثابت ہوئی جبکہ اس جعلی ڈیڈ کے حوالے سے ان کے کردار پر انہیں مجرم قرار دیا جاتا ہے اور 7 سال قید بامشقت اور 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔بعد ازاں اس سزا کے خلاف مریم نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھاجس نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کی سزا معطل کردی تھی۔
جس کے بعد نیب نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا، جہاں یہ اپیلیں مسترد ہوگئیں تھیں تاہم نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر خان عباسی نے 9 جولائی 2019 کو احتساب عدالت میں درخواست جمع کرائی جس میں مریم نواز کے خلاف عدالت میں لندن جائیدادوں کی جعلی ٹرسٹ ڈیڈ پیش کرنے پر کارروائی کی استدعا کی گئی۔نیب کی درخواست میں کہا گیا کہ معزز عدالت تمام شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی اس لیے یہ ظاہر ہے کہ جواب دہندہ نے بدنیتی سے
من گھڑت اور جھوٹا ثبوت معلومات جمع کرائی جس کا مقصد عدالت کو گمراہ کرنا اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ حائل کرنا تھا۔جج محمد بشیر نے پراسیکیوٹر سے معلوم کیا کہ کن بنیادوں پر عدالت معاملے کر آگے بڑھا سکتی ہے، جس پر سردار مظفر خان عباسی نے کہا کہ جج کو اختیار ہے کہ وہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 30 کے تحت مریم نواز کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتے ہیں، جسے آرڈیننس کے شیڈول کے سیریل نمبر 3 کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔