اسلام آباد(آن لائن) وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے کابینہ اجلا س کے بعد میڈیا بریفنگ میں کہا کہ آئین کے مطابق وفاق جی ڈی پی کے 60فیصد سے زیادہ قرضہ نہیں لے سکتا، 2008ء میں 6690ارب روپے کا قرضہ تھا جو2018میں 30875ارب روپے ہو گیا، جی ڈی پی کے60فیصد سے زائد قرضہ لینے کی خلاف ورزی 2012سے شروع ہوئی، بنائے جانے والے کمیشن کے سامنے یہ معاملہ رکھا جائے گا کہ جو قرضہ لیا گیا کیا وہ کن مقاصد کے لئے استعمال ہوا جن کے لئے کیا تھا اور اگر نہیں کیا گیا تو یہ کہاں خرچ ہوا اور آفس ہولڈر کے بیوی
بچوں نے حکومتی خزانے سے کیا کیا فائدہ اٹھایا، کتنے سرکاری دورے کئے، کتنے جہازوں کو استعمال کیا اور کیا کیا اخراجات کئے، اور جو ذمہ داروں نے ان سے ریکوری ہو گی، انہوں نے بتایا کہ 150ارب روپے کے موبائل فونز کی سمگلنگ روکنے کیلئے متعلقہ وزارت کو ہدایت جاری کی گئی ہیں، ہمیں آگے بڑھنے کیلئے اخراجات کم اور آمدنی بڑھانا ہو گی تمام بے نامی جائیدادیں نادرا کے ریکارڈ میں آچکی ہیں، جو بھی اپنے اثاثہ جات دیکھنا چاہئے وہ ای سہولت میں جاکر دیکھ سکتا ہے، 30جون تک جو شخص اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرتا پھر کاروائی ہوگی۔