اسلام آباد(آن لائن) زمین پھٹی نہ آسمان گرا وفاقی دارالحکومت میں انسانیت کا سر جھکا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ جنسی بھیڑیوں نے پھول سی بچی کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ سفاک ملزمان نے بعد میں فرشتہ کو جان سے ہی مار ڈالا اور اپنے کالے کرتوت پر پردہ ڈالنے کیلئے لاش ویرانے میں پھینک دی،وفاقی پولیس کے ایس ایچ او شہزاد ٹاوٗن سب انسپکٹر عباس نے سستی اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے مقدمہ کا اندراج کرنے کی بجائے ورثاء سے ہی نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔
کم سن بچی کی نعش ملنے کے بعد ورثاء اور اہل علاقہ کے احتجاج کے بعد پولیس کے اعلی افسران بھی حرکت میں آگئے جنہوں نے فوری ایس ایچ او کو تبدیل کرتے ہوئے مقدمہ کی تفتیش کیلئے دو الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔ پولیس کے مطابق کیس میں ملوث ہونے کے شبہ میں تین افراد گرفتار کر لیئے گئے ہیں جن سے تفتیش جاری ہے۔دوسری جانب وزیر داخلہ نے بچی کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی اور ایکشن لینے کی ہدایت کرتے ہوئے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی۔واضح رہے کہ مقتولہ دس سالہ بچی کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے ضلع مہمند سے ہے۔ بچی پندرہ مئی کو اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد سے لاپتا ہوئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق کم سن بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے لاش جنگل میں پھینک دی گئی تھی۔ شہزاد ٹاؤن تھانے کے رہائشی، گل نبی نے 16 مئی کو پولیس کو درخواست دی تھی کہ اس کی دس سالہ بیٹی گھر سے کھیلنے کے لیے نکلی، لیکن واپس نہیں آئی۔ انھیں شبہ تھا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔اہل خانہ کے مطابق ابتدا میں پولیس کی جانب سے سستی اور ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور بچی کو تلاش نہیں کیا گیا۔ معاملے پر پولیس نے صرف رپورٹ درج کی۔ تاہم چار روز گزرنے کے بعد پولیس نے 19 مئی کو باقاعدہ ایف آئی آر درج کی اور 21 مئی کی شام کو جنگل سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔بچی کی لاش کو اسلام آباد کے پولی کلینک اسپتال منتقل کیا، جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد میت ورثا کے حوالے کردی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق جنگل کے قریب سے گزرنے والے عام شہریوں نے لاش دیکھنے کے بعد پولیس کو اطلاع دی جسے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کے گھر والوں نے اسے شناخت کر لیا۔لاش ملنے کے بعد لواحقین کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔ اس احتجاج میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر بھی شریک ہوگئے جنہوں نے اسپتال کے سامنے دھرنا دیا۔ ڈی آئی جی وقار الدین کا کہنا تھا کہ بچی کی گمشدگی کی رپورٹ 16 مئی
کو درج ہوئی تھی۔ 20 مئی کو بچی کی لاش ملی، لاش کا پوسٹ مارٹم کرلیا گیا ہے۔ڈی آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان کی گرفتاری کیلئے 2 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، 24 گھنٹے کے اندر ملزمان کو گرفتار کرلیں گے۔وقار الدین سیدکا کہنا تھا کہ اگر کسی نے لاپرواہی دکھائی ہے تو ضرور اس کے خلاف ایکشن لیں گے، بچی کی موت انتہائی افسوسناک ہے، پولیس اپنی ذمہ داری پوری کرے گی، انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے، جو پولیس کی غفلت کی جانچ کرے گی۔