اسلام آباد ( آن لائن ) وزیرا عظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفرا للہ مرزا نے ادویات کی قیمتوں میں کئے گئے 5سو فیصد سے زائد اضافہ کو 75فیصد پر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ وزیراعظم نے ادویات کی قیمتوں کا معاملہ سب سے پہلے حل کرنے کا کہا،65 فیصد آبادی اپنے اخراجات کا 60 فیصد علاج معالجے پر خرچ کرتے ہیں،ضروری ہے کہ اہم ادویات کو عوام کی دسترس میں رکھا جائے،حالیہ سالوں کی تاریخ ہے کہ دوائیاں غائب رہتی ہیں یا مہنگی ہوتی ہیں،
ہم نے تسلسل قائم نہیں کیا جس میں قیمتیں خود ساختہ نا بڑھیں،کچھ چیزوں کی ریگولیٹری میں خامیاں یا زیادتیاں نظام کا حصہ رہیں،قیمتوں کی نگرانی نا ہونے کے باعث منافع خوری بڑھی،2002 سے 13 تک دواؤں کی قیمتوں کو فریز کر دیا گیا،اس کے باوجود بھی دواؤں صنعتیں فروغ پا رہی تھیں،اگر جان بچانے والی ادویات بازار سے غائب ہو تو سمجھئے نظام میں گڑبڑ ہے،سابق وفاقی وزیر قومی صحت نے ادویات کی قیمتوں میں صرف 9 فیصد اور 15 فیصد اضافہ کا کہا تھا لیکن ڈریپ پالیسی کے تحت ان قیمتوں 500فیصد سے زائد اضافہ کر دیا گیا۔ ان خیا لات کا اظہار وزیرا عظم کے معاون خصوصی نے گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ 464ایسی ادویات تھیں جن کی قیمتیں پندرہ فیصد سے 500فیصد تک کا اضافہ کر دیا گیا تھا،جس کے باعث وزیر اعظم نے مجھے کہا کہ میں یہ ذمہ داریاں سنبھالوں اور ادویات کی قیمتوں میں کنٹرول کرتے ہوئے اس سسٹم کو ٹھیک کریں۔رمضان سے قبل ہم عوام کو دوائیوں کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے عوام کو 7ارب روپے کا ریلیف دیں گے۔ ایس آراو کے تحت 395 ادویات کی قیمتوں میں کمی کی جانی تھی لیکن ان میں بھی ادویہ ساز کمپنیوں نے کمی نہ کی جس کے لیے ہم نے ادویہ ساز کمپنیوں کے نمائندوں سے بات کی ہے کہ وہ ان ادویات کی قیمتوں میں فوری طور پر کمی کریں اور
اگر وہ کمی نہیں کریں گے تو ہم ڈرگ کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو ہارڈ شپ کوٹہ کی مد میں جن ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی منظوری دی ان کی قیمتوں میں ایک اور ایس آ ر او جاری کرتے ہوئے 9فیصد مزید اضافہ کر دیا گیا۔ ہم رمضان سے قبل اس ایسآر او کو واپس لیتے ہوئے ادویات کی قیمتوں میں کیا گیا 9فیصد اضافہ واپس لے رہے ہیں۔اس نو فیصد اضافہ سے انڈسٹری سالانہ 6ارب روپے کما رہی تھی اس اضافہ کو واپس لے لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادویہ ساز اداروں کی طرف سے عوام کی جیبوں سے حاصل کی گئی رقم کو ہم ڈرگ کورٹ کے ذریعے واپس حاصل کریں گے اور اس رقم کو ہم بیت المال میں جمع کروا دیں گے۔ ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا نے کہا کہ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کی پالیسی سازی میں بہت زیادہ خامیاں ہیں جنہیں ٹھیک کرنے کی ضرور ت ہے، 2002 سے 2013 تک ادویات کی قیمتوں کو منجمد کر دیا گیا اس دوران انڈسٹری میں اضافہ بھی ہوا،قیمتیں نہ بڑھانے سے ادویات میں فقدان بھی آیا،2013 میں
ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا لیکن عوامی پریشر کے باعث یہ قیمتیں تین دن کے بعد واپس لے لی گئیں۔ کچھ کمپنیوں نے عدالت سے رجوع کر کے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر لیا جس کے باعث سپریم کورٹ نے ایکشن لیا اور 31 دسمبر 2018 کو 889 ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کا ایس آر او جاری کیا گیا۔ 464 ادویات کی اضافی قیمتیں طے کی گئیں اور 395 ادویات کی قیمتوں میں کمی کی گی۔ 30 ادویات کی قیمتوں برقرار رکھی گئیں۔ قیمتیں بڑھا تو لی گئیں لیکن جن ادویات کی قیمتوں
میں کمی کی جانی تھی ان میں کمی نہ کی گئی،انہوں نے تسلیم کیا کہ ادویات کی قیمتوں میں 500فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں ا?یا، 75 ادویات کی قیمتوں میں 100فیصد اضافہ کیا گیا 39 ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا، انہوں نے اعلان کیا کہ ہارڈ شپ کوٹہ کے تحت کئے گئے اضافہ میں 75 فیصد سے زائد قیمت نہیں بڑھانے دی جائے گی۔ جب کہ سابقہ وفاقی وزیر اور ڈریپ حکام یہ کہتے رہے کہ ادویات کی قیمتوں میں صرف 15 فیصداور 9 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو کمپنیاں قیمتیں کم نہیں کریں گی ہم ان کے خلاف ڈرگ کورٹ میں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کی سہولیات ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ 65 فیصد سے زائد شہری ادویات اپنی جیب سے خریدتے ہیں جب کہ وہ اپنی ا?مدنی کا 60 فیصد صحت کی سہولیات حاصل کرنے پر خرچ کر دیتے ہیں جس کے باعث غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی غیر استحکام کے باعث بحران پیدا ہوا، ریگولیشن کی کمزوری کے باعث جن چیزوں کو ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا ان کو ریگولیٹ نہ کیا گیا
جن چیزوں کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت نہیں تھی ان کو ریگولیٹ کر لیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم سسٹم کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ ایسی لاپرواہی نہ ہو سکے۔ دریں اثناء وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے پاکستان موبائل کلینک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موبائل کلینک کا منصوبہ ایک اہم منصوبہ ہے۔ ان موبائل کلینکس کے زریعے دور دراز کے علاقوں کو گھر کی دہلیز پر علاج کی سہولت میسر آئے گی۔
موبائل کلینک کا منصوبہ حکومت کی جانب سے ہرفرد تک علاج کی سہولت پہنچانے کی وڑن کا حصہ ہے۔ پائیلٹ فیز میں خیبر پختونخوا اور سندھ کے دور دراز علاقوں کیلئے پندرہ موبائل فراہم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں مزید علاقوں کیلئے بھی موبائل کلینکس فراہم کئے جائیں گے۔ صحت کا شعبہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ حکومت نے صحت کے مسائل حل کرنے کیلئے ہیلتھ سٹریٹیجی تیار کی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا وڑن ہے کہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنایا جائے۔ وزیراعظم پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ جہاں عوام کو صحت، تعلیم اور دہگر سہولیات ریاست فراہم کرے۔ اس ضمن میں وزیراعظم نے صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیاہے۔ صحت کارڈ کے زریعے شہریوں کو مفت علاج ومعالج کی سہولت فراہم کیا جارہا ہے۔