اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی و کالم نگار بلال غوری نے اپنے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ میری معلومات کے مطابق حکومت کے پاس محض وفاقی وزارتوں اور ان کے تحت کام کر رہے ڈویژنز میں موجود سرکاری گاڑیوں کے اعداد و شمار موجود ہیں مگر مختلف محکموں،کارپوریشنز،خودمختار اداروں اور اتھارٹیز نے جو گاڑیاں لے رکھی ہیں ان کا ڈیٹا ہی دستیاب نہیں۔
مثال کے طور پر ایف بی آر، نیب، پیمرا، نیپرا، پی ٹی وی، ہائر ایجوکیشن کمیشن، بورڈ آف انویسٹمنٹ، اوگرا، پرنٹنگ کارپوریشن اور فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ جیسے ادارے اس دھارے میں نہیں آتے اور حسب منشاجب چاہیں اپنے بجٹ سے گاڑیاں خرید لیتے ہیں۔ شاہ خرچیوں کا یہ عالم ہے کہ صرف 41وفاقی وزارتوں کے زیر استعمال گاڑیوں کے فیول اور مرمت پر گزشتہ چار برس کے دوران 622ملین روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے۔ بلال غوری مزید لکھتے ہیں کہ 2012ء میں وفاقی حکومت نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ سینئر بیوروکریٹس کو گاڑیوں کے بجائے کار الائونس دیدیا جائے تاکہ گاڑیوں کے پیڑول اور مرمت کے بہانے کی جاری لوٹ مار ختم ہو۔ نئے رولز کے تحت طے ہوا کہ گریڈ 22کے تمام سرکاری افسروں کو ماہانہ 95910روپے،گریڈ 21کے افسروں کو 77430روپے جبکہ گریڈ 20کے تمام افسروں کو ماہانہ 65960روپے کارالائونس دیا جائے گا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تمام بڑے افسر تنخواہوں کے ساتھ کار الائونس بھی وصول کر رہے ہیں اور اپنے محکموں میں دستیاب سرکاری گاڑیوں کے مزے بھی لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے پالیسی بنائی گئی تھی کہ ہر سرکاری افسر کو دو گاڑیاں دی جائیں گی،ایک دفتر آنے جانے کے لئے اور دوسری ٹورنگ وہیکل ہو گی یعنی اگر سرکاری کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑتا ہے تو ٹورنگ وہیکل
استعمال کی جائے گی۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ شہر میں چلنے والی گاڑی کو ہی بیرون شہر جانے کے لئےبھی استعمال کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے ؟اور پھر بات محض دو گاڑیوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ کئی افسروں نے دس دس سرکاری گاڑیوں پر قبضہ جما رکھا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟کیا یہ گاڑیاں نیلام کرکے اور گھر بیچ کر سرکاری افسروں
کوبے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے ؟ہرگز نہیں۔ ان سرکاری افسروں کو موجودہ نظام میںریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل ہے اور انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے جائز مراعات و سہولتیں فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ مطالبہ کرنے والا کوئی احمق ہی ہو سکتا ہے کہ افسر شاہی پر تعیش گھروں سے خیمہ بستیوںمیں منتقل ہو جائے اور لگژری گاڑیوں کے بجائے سائیکلوں یا موٹر سائیکلوں پر دفتر آئے۔
ان کے ٹھاٹھ باٹھ اور شاہی کروفر بھی بیشک برقرار رہے مگر ٹرانسپورٹ کے نظام میں کچھ اصلاحات کر دی جائیں تو سالانہ اربوں نہیں کھربوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ ایک حل تو یہ ہے کہ تمام سرکاری رہائشگاہیں اور گھر نیلام کر دیئے جائیں تاکہ گھروں کی تزئین و آرائش اور گاڑیوں کی مرمت و پیٹرول پر ضائع ہونے والے کھربوں روپے کی بچت ہو سکے اور اس کے عوض ہر
سرکاری افسر کو ہائوس رینٹ اور کار الائونس کی مَد میں معقول رقم دیدی جائے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ سرکاری افسروں کو حق ِملکیت دیا جائے۔ ایک بار طے کرلیا جائے کہ کس گریڈ کے سرکاری افسرکو کتنے سی سی گاڑی دینی ہے۔ جب سول سروسز اکیڈمی سے تربیت مکمل کرنے کے بعد کوئی سرکاری افسر باہر نکلے تو پوسٹنگ سے پہلے ہی گاڑی کی چابی اسے تھما دی جائے اور بتا دیا جائے
کہ یہ گاڑی اب سرکارکے نام نہیں بلکہ آپ کی ذاتی ملکیت ہے اور جب جہاں آپ کا تبادلہ ہو گا آپ نئے محکمے سے گاڑی لینے کے بجائے اپنی یہ گاڑی ساتھ لیکر جائیں گے۔ حکومت آپ کو نئی گاڑی تب دے گی جب رولز کے مطابق آپ نئی گاڑی کے حقدار ہونگے۔ انسانی فطرت ہے کہ جو چیز اپنی ہے اس کا ہر ممکن خیال رکھا جاتا ہے اس لئے یہ گاڑیاں بے رحمی اور بے دردی سے استعمال ہونے
سے بچ جائیں گی۔ حکومت کو نہ صرف پیٹرول اور گاڑیوں کی مرمت کے نام پر ہونے والی لوٹ مار اور خورد برد سے نجات مل جائے گی بلکہ بے تحاشاڈرائیوروں کا بوجھ بھی کم ہو گا اور کوئی سرکاری افسر ایک سے زیادہ گاڑیاں استعمال نہیں کر سکے گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح عدلیہ اور افواج ِ پاکستان سمیت کئی اداروں نے اپنے افسروں کو بینکوں سے
آسان شرائط اور کم شرح سود پر گاڑیاں لیکر دینے کا بندوبست کر رکھا ہے،وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی سول سرونٹس کے لئے کوئی ایسا ہی پیکیج تیار کر لیں۔ حل تو بیشمار ہیں لیکن سب سے بڑا چیلنج ہے کفایت شعاری اور سادگی کی اس مہم کا رُخ افسر شاہی کی طرف موڑنا۔ فی الحال تو صورتحال یہ ہے کہ نئے پاکستان میں بیوروکریسی منہ چڑاتے ہوئے کہہ رہی ہے،عمران خان ! روک سکوتو روک لو۔