اتوار‬‮ ، 17 اگست‬‮ 2025 

پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین مقدمہ 99 سال ۔۔ایک ہزار فریق۔۔درجنوں وکیل سپریم کورٹ کے جج بھی چکرا کر رہ گئے

datetime 22  ستمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ہمارے عدالتی نظام میں سقم موجود ہیں جن کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے مگر دیوانی مقدمات کی طوالت تو ایسی ہے کہ دادا کے مقدمے کا فیصلہ یا کیس پوتے یا پڑپوتے تک پہنچ جاتا ہے اور یوں دو نسلیں عدالتوں کے چکر میں بوڑھی ہو جاتی ہیں مگر آپ یہ جان کر حیرت سے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں گے کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک طویل ترین مقدمہ منظر عام پر آیا ہے

جس میں چوتھی نسل فیصلے کے انتظار میں عدالتوں کے چکر لگا رہی ہےمگر مقدمہ ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح طویل ہی ہوتا جا رہا ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں جائیداد کی تقسیم کے بارے میں ایک ایسے مقدمے کی سماعت ہوئی جس کی مختلف عدالتوں سماعت 99برس سے جاری ہے۔ جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور کی تحصیل خیرپور ٹامے والی کے رہائشی محمد نصراللہ کے مطابق ان کی پڑدادی روشنائی بیگم جو اس وقت انڈین صوبے راجستھان میں رہائش پذیر تھیں، نے جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے اپنے بھائی شہاب الدین کے خلاف ایک درخواست سنہ1918 میں سول عدالت میں دائر کی تھی۔محمد نصر اللہ نے بتایا کہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے یہ درخواست راجستھان میں ہی زیر سماعت رہی اور پاکستان کے قیام کے بعد اس جائیداد کے بدلے میں جو بھارت میں رہ گئی تھی، پاکستانی حکومت کی طرف سے ضلع بہاولپور اور ضلع مظفر گڑھ کے علاقے میں زرعی اراضی کے 36 ہزار یونٹ فراہم کیے گئے جو کہ 56 مربے بنتے ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان میں یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے تو اس کے بعد اس کی بیوہ چھوڑی ہوئی جائیداد سے مستفید تو ہو سکتی ہے لیکن اس کو نہ تو اپنے نام کرواسکتی ہے اور نہ ہی اس کو فروخت کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔نصراللہ کے مطابق

شہاب الدین کی وفات کے بعد ان کی بیوہ امام سین نے پاکستان کی عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہونے کے باوجود سنہ 1960 میں یہ تمام جائیداد اپنے نام کروالی تھی۔اُنھوں نے کہا کہ سنہ 1987 تک یہ معاملہ سول جج، سینیئر سول جج، ایڈشنل سیشن جج اور سیشن جج کی عدالتوں میں زیر سماعت رہا، جس میں فیصلہ کبھی ایک کے حق میں آیا اور کبھی دوسرے کے حق میں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ پھر یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ کے بہاولپور بینچ میں چلا گیا جہاں ان درخواستوں کی سماعت ہوئی اور عدالت عالیہ کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں 18 سال لگے گئے۔عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے فریقین نے اتفاق نہیں کیا اور وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے۔ متاثرہ فریق نصراللہ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ کے اس فیصلے کو

دونوں فریقوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ2005 میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔عدالت عظمیٰ میں بھی اس مقدمے کی سماعت کو 12 سال ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک مقدمہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس وقت یہ زمین شہاب الدین کے پڑ پوتے محمد فیاض کے استعمال میں ہے اور فریقین الزام لگاتے ہیں کہ اُنھوں نے اس جائیداد کا ایک بہت بڑا

حصہ فروخت کر دیا ہے۔ نصراللہ کے مطابق جائیداد کی تقسیم کے مقدمے میں پہلے صرف دو افراد فریق تھے لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر ایک ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ ہر فریق نے ایک سے زیادہ وکیل رکھے ہوئے ہیں اور ہر سماعت پر کسی وکیل کی مصروفیت یا کسی فریق یا اس کے کسی رشتہ دار کی موت کے بارے میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جاتا ہے

جس کی وجہ سے یہ سماعت تاخیر کا شکار رہی ہے۔جمعرات کے روز بھی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت شروع کی تو ایک فریق نے اپنے وکیل کی عدم دستیابی کی درخواست عدالت میں پیش کردی جس کی وجہ سے عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔سماعت ملتوی ہونے کے بعد مقدمے

کی پیروی کیلئے سینکڑوں میل دور سے آئے فریقین نے سپریم کورٹ کے کار پارک میں مقدمے کی 99ویں سالگرہ کا کیک کاٹ کر ایک صدی پوری ہونے سے قبل مقدمے کے فیصلے کی امید کا اظہار کیا۔

موضوعات:



کالم



وین لو۔۔ژی تھرون


وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…