صوبہ پنجاب کے گورنر اور وزیراعلیٰ کا روزانہ خرچ کتنے لاکھ ہے؟ناقابل یقین انکشاف

5  جون‬‮  2017

لاہور(آئی این پی ) پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشیدنے بجٹ پر عام بحث کے دوران کہا ہے کہ 712ارب کے مقروض صوبے کے عوام کو گورنر روزانہ 8لاکھ91ہزار جبکہ خادم اعلیٰ 19لاکھ78ہزار روپے میں پڑ رہے ہیں ، ترجیحات سڑکیں، پل اور انڈر پاسز نہیں بلکہ انسان او ران کو صحت ، تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی ہونی چاہیے ،

وزیر اعلیٰ کابینہ اور منتخب اراکین کی بجائے بیورو کریسی کے ذریعے صوبہ چلا رہے ہیں اور اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ میاں محمود الرشید نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے چار سال سے اپوزیشن کے ساتھ جس طرح کا رویہ روا رکھا ہوا ہے اس کے باعث ہم احتجاج پر مجبور ہوئے ۔ کیا ہمیں پنجاب کی عوام نے منتخب نہیں کیا ، ہما را قصور صرف یہ ہے کہ ہمارا حکومتی بنچوں سے تعلق نہیں،ہم بھی اپنے حلقے کی عوام کو جوابدہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اقتدار کی لمبی ترین اننگز کھیلی ہے لیکن انہوں نے گھسے پٹے جمہوری رویے کو فروغ دیا اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم بھی بجٹ کے موقع پر ڈیسٹ بجا کر ان کی تحسین کرتے لیکن وہ موقع آنے ہی نہیں دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پری بجٹ سیشن میں تجویز دی تھی کہ ایوان کی قائمہ کمیٹیوں کو با اختیار کیا جائے اور ان کے ذریعے بجٹ ترتیب دیا جائے لیکن وزیر اعلیٰ کا مائنڈ سیٹ ہے کہ صوبے کو بیور کریسی کے ذریعے چلانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے اعلان کیا تھاکہ ہم کشکول توڑ دیں گے لیکن 2008ء میں سر پلس جانے والا صوبہ آج 712ارب روپے کا مقروض ہے اور حکمران اب بھی اندھا دھند قرضے لے رہے ہیں ۔ ان میں سے اکثر قرضوں کا کابینہ اور ایوان کو کچھ معلوم ہی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب میرے لئے قابل محترم ہیں

لیکن انہوں نے کون سی توپ چلانی ہوتی ہے ،بتایا جائے کیا آرڈیننسز اور اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لئے صرف دستخط کرنے پر گورنر ہاؤس پر سالانہ کروڑوں روپے اخراجات کئے جارہے ہیں۔ ساڑھے چار سو کنال میں رہنے والے گورنر کو جی او آر میں آٹھ کنال کا گھر دیا جائے ۔ عوام روٹی اور پانی کو ترس رہے ہیں اس لئے حکمرانوں سے مطالبہ ہے کہ اپنے اقدامات پر نظر ثانی کریں اور اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف خود کو خادم اعلیٰ کہتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ ہاؤس کے لئے 49کروڑ15لاکھ56ہزار روپے مختص کئے گئے ہیں اور مقروض صوبے کے عوام کو خادم اعلیٰ 19لاکھ78ہزار روزانہ میں پڑرہے ہیں جبکہ خادم اعلیٰ کے سیکرٹریٹ میں ایک ہزار ملازمین ان کی خدمت پر مامور ہیں۔ کابینہ میں موجود وزراء ہمت کریں اور ان معاملات پر بات کر کے تاریخ میں امر ہو جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ محکموں کے بجٹ میں رواں مالی سال کے مقابلے میں15ارب روپے اضافہ کیا گیا ہے

حکومت کی کفایت شعار کمیٹی کہاں ہے ؟ہمارا مطالبہ ہے کہ اس بجٹ پر نظرثانی کی جائے اور اس میں کمی کی جائے ۔ اورنج لائن ٹرین اور ایک محکمے کے کیس کیلئے پرائیویٹ وکلاء کو تین کروڑ روپے فیس کی مد میں ادا کئے گئے ، کیا ان محکموں کے کیسز شریف الدین پیرزادہ مرحوم نے لڑے ۔ ایڈووکیٹ جنرل اور سرکاری وکیل کہاں ہیں؟۔غریب صوبے کے خادم اعلیٰ کیلئے ایک ارب 76کروڑ میں ہیلی کاپٹر خریدا گیا یہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف منصوبوں کے افتتاح کی مد میں کروڑوں روپے لگا دئیے گئے ۔ حکمران یہاں جواب نہ دیں لیکن انہیں اگلے جہان میں ایک ایک پائی کا حساب دینا پڑے گا۔ اپوزیشن کی تقریر کے دوران حکومتی بنچوں پر بیٹھی خواتین نے جھوٹاجھوٹا کے نعرے لگانے شروع کر دئیے جبکہ قائمقام اسپیکر کے روکنے کے باوجود خواتین اراکین کی طرف سے ڈیسک بجا کر نعرے لگانے کا سلسلہ جاری رہا

جس پر میاں محمود الرشید نے کہا کہ اگر حکومتی بنچوں کا یہی رویہ رہا تو ہمیں سوچنا پڑے گا اور ہم بجٹ اجلاس کا مکمل بائیکاٹ کر دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں زراعت کے لئے 78ارب کا بجٹ رکھا گیا لیکن صرف 37فیصد خرچ ہو سکا یہ کسانوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔ سکولز ایجوکیشن کے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 12ارب روپے کمی کی گئی ہے ۔ رواں مالی سال میں انرجی کے لئے 9ارب روپے رکھے گئے اور صرف 3ارب 36کروڑ خرچ ہوئے جبکہ آئندہ مالی سال کے لئے 7.75ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ پینے کے صاف پانی کیلئے رواں مالی سال میں 30ارب روپے رکھے گئے جبکہ صرف ڈھائی ارب روپے خرچ ہوئے اور آئندہ مالی سال کے لئے ساڑھے 24ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔سوشل ویلفیئر کی مد میں بجٹ کم کر دیا گیا ہے ۔ سپورٹس اور خواتین کے بجٹ میں کئی گنا کمی کر دی گئی ہے۔ پولیس کے بجٹ کوبڑھا کر 95ارب61کروڑ کر دیا گیا ہے لیکن پولیس کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوا ۔ اس موقع پر حکومتی اراکین نے دوبارہ نعرے بازی شروع کر دی

جس پر قائد حزب اختلاف نے تقریر روک کر کہا کہ میں تین دن یہیں کھڑا ہوں اور حکومت کو ان کے کرتوت بتاکر جاؤں گا ۔صوبائی وزیر زعیم قادری نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون کو صوبے کی وزیر خزانہ بنایا گیا ۔ اپوزیشن پر لازم تھاکہ خاتون کو پوری عزت و تکریم دیتے اور بجٹ تقریر سنتے لیکن یہاں سیٹیاں بجائی گئیں جس سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ۔صدر کی تقریر کے دوران ایک سیٹی بجی جس سے پوری دنیا میں پاکستان کا امیج متاثر ہوا ۔ استدعا ہے جس طرح ہماری بہن نے روزہ رکھ کر آپ کے شور شرابے میں تقریر کی اور ان کی بات نہیں سنی جارہی تھی آپ بھی آج زرا زور لگائیں بلکہ ایوان میں تو آپ کے اپنے لوگ آپ کی تقریر سننے کے روادار نہیں لیکن ہم ایسا ظرف نہیں دکھائیں گے کیونکہ آپ میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا ۔ اس دوران میاں اسلم اقبال اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ جب ماڈل ٹاؤن میں حاملہ خواتین کو گولیاں ماری جارہی تھیں اس وقت آپ کو خواتین کی عزت یاد نہیں آئی ۔

تاہم قائمقام اسپیکر کی مداخلت پر خواتین نے نعرے بازی روک دی اور قائد حزب اختلاف نے دوبارہ تقریر کا آغاز کیا ۔ انہوں نے کہا کہ حکمران دعویٰ کر رہے ہیں کہ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے کہ حالانکہ میں چیلنج کرتا ہوں کہ تعلیم کے بجٹ میں ایک فیصد کمی کی گئی ہے۔ آج بھی ایک کروڑ بچے سکولوں میں نہیں جارہے ۔ اس موقع پر حکومتی خواتین نے دوبارہ نعرے بازی شروع کر دی جس پر محمو دالرشید نے کہا کہ آپ اپوزیشن بنچوں پر آجائیں ۔ انہوں نے اسپیکر کے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہاؤس کو ان آڈر نہیں رکھنا چاہتے تو پھر ہم سے کوئی بھی نہیں آئے گا اور ہم بائیکاٹ کرتے ہیں ۔ جس پر وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں معزز قائد حزب اختلاف سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان روایات کو ہماری طرف سے جنم نہیں دیا گیا ۔ جب بھی قائد حزب اقتدار ، قائد حزب اختلاف یا وزیر خزانہ تقریر کریں تو انہیں سنا جاتا ہے ۔ نہ سننے کا کلچر ، ہوٹنگ کا کلچر کس نے پروموٹ کیا ۔

بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا ایوان کی روایات کو قائم رکھا جائے گا اور ہم انہیں آگے بڑھانا چاہتے ہیں لیکن آپ بھی ان پر قائم رہیں ۔ محمود الرشید نے کہا کہ احتجاج جمہوریت کا حسن ہے جس پر قائمقام اسپیکر نے کہا کہ یہ کہاں کا احتجاج ہے کہ آپ سیٹیاں لے کر ایوان میں آجا ئیں ۔ انہوں نے دوبارہ اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 48فیصد تھا جو آج کم ہو کر 21فیصد رہ گیا ہے ۔ پنجاب کے حکمران نو سالوں میں کوئی زرعی پالیسی نہیں دے سکے اور ڈھنگ ٹپاؤ پالیسی سے کام چلایا جارہا ہے۔ زراعت ڈویلپمنٹ پروگرام میں 20ارب رکھے گئے لیکن صرف ساڑھے 7ارب روپے خرچ ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں ایک کروڑ 35لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں کیا تیس ہزار ٹیکسیاں چلانے سے بیروزگاری ختم ہو سکے گی ۔

آپ نے دس سالوں سے نعروں سے کام چلا لیا ہے ،بجٹ پر نظر ثانی کی جائے اور بیروزگاری کے خاتمے کیلئے منصوبہ بندی کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم آشیانہ کا بڑا شور سنتے تھے لیکن آج یہ سکیم افسانہ بن گئی ہے ۔پنجاب کے بارے میں تاثر ہے کہ وزراء بے اختیار ہیں اور یہاں ون مین شو ہے ۔ آپ کی حکومت کا آخری سال ہے وزراء کو با اختیار بنائیں ، بیورو کریسی کے ذریعے صوبے کو چلانے کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کیا جائے بجٹ تقریر میں حکومت اور اپوزیشن کے دیگر اراکین نے بھی حصہ لیا ۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…