اسلام آباد(آئی این پی )وزیرمملکت برائے تعلیم انجینئر بلیغ الرحمان نے کہا کہ 1999میں 2800ارب کا قرضہ تھا ، مشرف دور میں 6000ارب تک پہنچ گیا ، 2008سے2013تک 6000ارب سے بڑھ کر14000ارب ہوگیا اور دونوں ادوار میں قرضوں میں دو گناہ اضافہ ہوا ، ابھی بڑھ کر تقریبا 20ہزار ارب ہوگیا لیکن دوگنا اضافہ نہیں ہوا ، آج تعمیر وترقی سب کو نظر آرہی ہے ، موجودہ حکومت کے آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے تکمیل کیا ہے ، صنعتیں کھل رہی ہیں ، ریکارڈ سرمایہ کاری ہورہی ہے ،
انہوں نے کہاکہ محصولات میں اضافہ ہورہا ہے ، پاکستان میں اقتصادی ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دنیا میں ملک معامشی دباؤ کا شکار ہے ، آج صوبوں کو 100ارب زیادہ رقم دی جا رہی ہیں ، سٹاک ایکس چینج بلندیوں کو چھو رہی ہے ، زرمبادلہ کے ذخائر اتنے ہوگئے ہیں کہ کسی کو شاید اس کی توقع نہیں تھی ، عالمی مالیاتی ادارے ملک کی معاشی ترقی میں بہتری کی رپورٹس دے رہے ہیں ، آج یہ تا ثرختم ہو چکا ہے کہ پاکستان میں جو قرضے لئے جا رہے ہیں وہ کرپشن کی نذر ہوں گے ، کرپشن میں کمی ہو رہے ہے ، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستان کی رینکنگ میں بہتری آئی ہے۔ پیر کوان خیالا ت کا اظہار انہوں نے سینیٹر نثار محمد کی جانب سے قرضوں میں اضافہ کے حوالے سے قرداد پر بحث سمیٹتے ہوئے کیا۔سینیٹر نثار محمد خان نے کہا کہ بیرونی قرضے کے حوالے سے آ ئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے آج قرضے220000ارب ہوچکے ہیں ، آج کشکولمیں اضافہ ہو چکا ہے ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک ، آئی ایف سے قرضے لئے جا رہے ہیں ، سی پیک کی علیحدہ کہانی ہے ، حکومت قرضوں میں اضافہ کر رہی ہے واپس کون کرے گا ، وزیراعظم اعلان کرتے ہیں کہ لیپ ٹاپ کے لئے رقم دوگنا کردیا ہے لیکن اس کیلئے رقم کہاں سے آتی ہیں ، ملک کے ساتھ انتہائی ظلم ہو رہا ہے ، قرضوں کے حوالے سے ایک میکنزم ہونا چاہیے ، قرضوں کے معاملے کو کمیٹی میں زیر غور لایا جائے ۔
سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ملک کی مالی حالت خراب ہے ، تمام اظہارییمنفی ہیں ، حکومت کی ساری توجہ ملک کے اندر اور باہر سے قرضہ حاصل کرنے میں ہے اور بلاواسطہ ٹیکسوں کے اضافے میں ہے ۔ایکسپورٹ میں کمی ہورہی ہے اور یہ محصولات میں کمی ہو رہی ہے ، معیشت کو خوشحالی کی راہ پر لانا ہے ، سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بیرونی قرضے لے کر کہاں خرچ ہوتے ہیں ، یہ سنجیدہ سوال ہے ، قرضے لینے کی حد کو 60فیصد سے خاموشی کے ساتھ حکومت نے اس آراء کے تحت 65فیصد کر دیا ہے ، اس معاملہ کو کمیٹی آف دی لیول میں زیر بحث لایا جائے ، معاملہ پر سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے ۔سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ یہ اہم مسئلہ ہے ، ہر حکومت کے 70سال میں قرضے لینے میں کوئی کمی نہیں کی ، غیر ملکی قرضے صوبوں میں مساوی بنیادوں پر خرچ نہیں کئے جاتے۔سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ نثار محمد کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے بہتری لانے کیلئے آوازاٹھائی ۔ قرضوں کا استعمال منصفانہ بنایا جائے ۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ 70سالوں میں بیرونی قرضوں پر کمی صوبے میں کوئی منصوبہ نہیں لگایا گیا ، بیرونی قرضوں کا حصول روکا جائے کہ معاملہ کمیٹی کے ہول میں بھیجا جائے ۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ملک کو سکیورٹی سٹیٹ بنایا اور اس کیلئے بجٹ کا خسارہ پیدا ہوا اور اس کو پورا کرنے کیلئے قرضے لے رہے ہیں ، صنعتیں بند ہو رہی ہیں ، برآمدات کم ہو رہی ہے ، طاہرلاہوتی کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ بیرونی قرضے لے ۔ کچھ لوگوں کے پاس پانامہ ہے اور کچھ کے پاس پاجامہ تک نہیں ہے ۔
سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ قرضہ لینا موجودہ دور میں غلامی کی ایک شکل ہے ، قرضہ لینے اور واپسی میں پارلیمنٹ کا کردار ضروری قرار دیا جائے ۔ پارلیمنٹ اس معاملہ میں مداخلت کرے ۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ قرضوں کے اضافے میں ساری حکومتیں ذمہ دار ہیں ، 450ارب کے قرضے جاگیرداروں نے معاف کرائے ۔ قرضوں کی پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہے ۔
سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ قرضوں کے حوالے سے پارلیمنٹ کی نگرانی ہونی چاہیے اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر قرضہ لینے کی اجازت نہ دی جائے