کوئٹہ (آئی این پی ) ماہرین نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ اگر بلوچستان میں پانی کے ضیاع کو روکنے اور سیلابی پانی کو محفوظ بنانے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو نہ صرف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت مختلف اضلاع صحرا بن جائینگے بلکہ غربت اورپسماندگی میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا ،موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بلوچستان میں قحط سالی اور سیلاب بھی درپیش چیلنجز میں سے ہیں ،آفات سے بچنے اور پانی کے ضیاع کو روکنے سمیت ڈیلے ایکشن ڈیمز کی تعمیر کیلئے موثر منصوبہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے ان خیالات کااظہار صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال ،سیکرٹری پلاننگ اینڈڈویلپمنٹ شہریار تاج ،چیف انجینئر پی ایچ ای سید جاوید ،آئی یو سی این کے فیض کاکڑ ،پروفیسر ڈاکٹر عبدالتواب اچکزئی سمیت دیگر نے کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں پانی کے حوالے سے منعقدہ دو روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال کاکہناتھاکہ بدقسمتی سے ملکی اور صوبائی سطح پر قدرتی اور سیلابی پانی کے تحفظ کیلئے وہ کام نہیں کیاجاسکا جس طرح ہوناچاہئے تھا سالانہ بنیادوں پر 12سو ملین ایکڑ فٹ پانی سے 14ملین ایکڑ فٹ سیلابی پانی ہمیں دستیاب ہوتاہے لیکن انہیں محفوظ بنانے کیلئے ہمارے پاس ڈیمز نہیں ہے اسی لئے بلوچستان میں اس وقت بھی تین کروڑ ایکڑ زمین بنجر ہے بلکہ جس اراضی پر باغات تھے ان کی بھی کٹائی کاسلسلہ جاری ہے یہی نہیں اب تو زراعت کے علاوہ پینے کیلئے بھی پانی دستیاب نہیں ہے ،ان کاکہناتھاکہ ہمیں پانی کے ذخائر کو بچانے ،سیلابی پانی کو محفوظ بنانے کیلئے ماہرین کی مدد چاہئے ہوگی جب تک ہمارے پاس موجود پانی کی مقدار اور سیلابی پانی کا ڈیٹا سمیت انہیں بروئے کار لانے کے حوالے سے درست اعداد وشمار نہیں ہونگے اس وقت تک اس سلسلے میں موثر منصوبہ بندی ممکن نہیں ہوگی ،
ان کاکہناتھاکہ کوئٹہ شہر کو محدود آبادی کیلئے ڈیزائن کیاگیا مگر اس وقت یہاں 25لاکھ سے زائد لوگ رہائش پذیر ہے موجودہ حکومت نے شہر میں پانی کے مسئلے کے حل کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے ہیں جس کا ثبوت ڈیلے اور چیک ڈیمز کی تعمیر کی منصوبہ بندی اور ان پر جاری کام ہے ،انہوں نے کہاکہ مانگی ڈیم،برج عزیز خان ڈیم ،ہلک ڈیم اور سپین تنگی میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے کام کیاجارہاہے کوئٹہ کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وزیراعلیٰ پہلے ہی اربوں روپے کے منصوبے کااعلان کرچکاہے انہوں نے کہاکہ بارشوں کی کمی کا خاص وجہ جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی بھی ہے ایسا لوگوں نے گیس کی عدم دستیابی کے باعث کیا ،اس وقت بھی ہمیں بلوچستان میں پائے جانے والے قدرتی درختوں ،جڑی بوٹیوں کی کاشت کے رحجان کو پروان چڑھا کر اس سلسلے میں شعور وآگاہی پیدارکرناہوگا
انہوں نے کہاکہ ہم پی ایچ ای اور دیگر اداروں سے پانی کے حوالے سے ریسرچ اور اسٹڈی کے کام کا کہہ رہے ہیں تاکہ اس سلسلے میں موثر منصوبہ بندی کی جاسکے انہوں نے کہاکہ جیالوجیکل ماہرین کو تشویش ہے کہ زمین دھنسنے کے باعث زیر زمین پانی کے ریچارج کا عمل بری طرح متاثر ہوگا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کیاجائے ،سیکرٹری پی اینڈ ڈی شہریار تاج کاکہناتھاکہ دوروزہ سیمینار کے دوران ماہرین اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پانی کے محتاط استعمال ،بچاؤ اور ذخیرہ کرنے کیلئے فوری حکمت عملی ہونی چاہئے ،موجودہ حکومت نے تعلیم اور صحت سے بھی زیادہ توجہ پانی کے مسئلے پر دی ہے اسی لئے تو پانی سے زیادہ 25فیصد بجٹ کسی کیلئے نہیں رکھاگیاہے ان کاکہناتھاکہ حکومت نے ان علاقوں میں جہاں پانی کی سطح خطر ناک حد تک گر چکی ہے میں ٹیوب ویلز لگانے پر پابندی عائد کی ہے ہماری کوشش ہے کہ ڈرپ ایریگیشن سمیت ایسے درخت اور بیج متعارف کرائی جائے جن کیلئے پانی کی کم ضرورت پڑتی ہو
انہوں نے کہاکہ دنیا میں اب پانی اور صحت بخش پانی کی ڈیمانڈ کی جارہی ہے اس لئے حکومت نے فیوریفکیشن وارٹرپلانٹس کے منصوبے کو آگے بھی جاری رکھنے کاپلان بنایاہے صوبے میں 90نئے پلانٹس لگانے کیلئے بجٹ مختص کردیاگیاہے ان کاکہناتھاکہ پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کیلئے کوئٹہ میں ایک غیر فعال پلانٹ کو فعال بنانے سمیت دو مزید پلانٹ کو لگانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ،انہوں نے کہاکہ حکومت عالمی ڈونرز کو پانی کے مسئلے کی جانب راغب کرنے کیلئے کوشاں ہے جبکہ دیگر مقررین کاکہناتھاکہ سیمینار کا مقصد بلوچستان میں واٹر پالیسی ،اس سلسلے میں پانے جانیوالے مس مینجمنٹ کے خاتمے ،موجودہ حالت میں موجود پانی کو احتیاط سے استعمال میں لانے اور دیگر کے حوالے سے طویل بحث ومباحثہ کیاہے تاکہ اس سلسلے میں ایک مکینزم بنائی جاسکے اور اس کے تحت آگے بڑھاجاسکے ۔