کراچی(این این آئی)میئر کراچی وسیم اختر کی اہلیہ نائیلہ خان نے کہا ہے کہ وسیم اختر پر بنائے گئے تمام مقدمات اور ان کا اعترافی بیان جھوٹ کا پلندہ ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،مئیر کی نامزدگی کے روز ایک ہی دن میں ان پر 20مقدمات بنادیئے گئے،وسیم اختر عدلیہ سے انصاف کے لیے پر امید ہیں ،میئر کراچی 100دن سے جیل میں ہیں،ضمانت پر رہائی ان کا حق ہے،شہر کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے پورا شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے میں ، اگر 12مئی کا صحیح معنوں میں بااختیار قوتیں مقدمہ کھولنا چاہتی ہیں تو پھرہمت کریں اور اس وقت کے صدر ،ناظم کراچی ،گورنر ، وزیر اعلی ، آئی جی سندھ،چیف سیکریٹری سندھ، اور دیگر کو بھی شامل مقدمہ کیا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کرتی ہوں کہ وسیم اختر کو باعزت بری کیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے بدھ کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ رکن قومی اسمبلی سنجے پروانی ، ایم پی اے محفوظ یار خان، ایم پی اے محمود عبدالجبار بھی موجود تھے۔پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے جے آئی ٹی رپورٹس کی نقول اور مبینہ اور شواہد کی کاپیاں صحافیوں میں تقسیم کیں۔انھوں نے کہا کہ وسیم اختر پر 12مئی اور دیگر بنائے گئے مقدمات حقائق پر مبنی نہیں ہیں ان تمام کیسز میں ضمانت ہونی چاہیے، مقدمات کو طول دیا جارہا ہے ، اپنے اور اس شہر کے حق کے لیے اہلخانہ کے ساتھ احتجاج کیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ وسیم اختر پرکراچی کا میئر نامزد ہونے سے قبل کوئی مقدمہ نہیں تھالیکن میئر کے لیے نامزد ہوتے ہی 20مقدمات بنا دیے گئے جو جھوٹے ہیں ۔انھوں کہا کہ ان مقدمات میں گاڑیاں جلانے کے بھی مقدمات شامل ہیں جن میں دو گاڑیاں ایم کیو ایم کی شامل ہیں ، حقائق کے بر خلاف مقدمات پر عدالتوں کو بھی سوچنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ وسیم اختر ملک سے بھاگنے والوں میں سے نہیں ،حالیہ مقدمات اور گرفتاری سے قبل تین مرتبہ ملک سے باہر گئے اور جب بھی کسی کیس میں
عدالت نے طلب کیا وہ حاضر ہوئے ہیں ۔ مقدمات جھوٹے ہونے کے شواہد ٹی وی پروگرام میں بھی سامنے آچکے ہیں ،انھوں نے کہا کہ ضیالدین اسپتال سے علاج کرانے والے جس بلال نامی شخص کے بل کو مقدمہ میں شامل کیا گیا وہ صرف ایک دن اسپتال میں داخل رہا ،اس مریض کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ،پولیس تھانوں میں بھی کوئی مقدمہ نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ بلال سے وسیم اختر کا کوئی تعلق نہیں ، دہشت گردوں کے علاج میں سہولت کار بننے پر ڈاکٹر عاصم کیس کی جے آئی ٹی میں بہت سی اہم شخصیات کے نام شامل ہیں تو انھیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ ایک ہی کیس اور متن پر 26ایف آئی آر درج کی گئیں ،تفتیشی افسر نے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا کہ ان کیسز کے ثبوت اور شواہد نہیں ہیں اس لیے کیس آگے نہیں چل سکتا۔ نائلہ وسیم اختر نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کیس پاکستان کی تاریخ کا میگا کرپشن کیس ہے لیکن ان کے کیس کی اہمیت کو کم اور وسیم اختر کیس کی اہمیت کو بڑھا دیا گیا ہے
۔انھوں نے کہا کہ 12مئی کیس کی عدالتی تحقیقات کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس نے7رکنی لارجر بینچ قائم کی تھی تاہم عدم ثبوت کی بنیاد پر کیس کو بند کردیا گیا تھا اور اب 9سال بعد اچانک 12مئی کا کیس کھولا گیا ہے اور صرف وسیم اختر پر کیس چلانے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ خواتین کے حوالے سے الطاف حسین کی گئی تقریر سننے پر بھی مقدمہ بنایا گیا اور ایک کچی آبادی کی رہائشی خاتون کی شکایت پر یہ مقدمہ بنایا گیا جس کا یہ موقف تھا کہ اس نے الطاف حسین کی تقریر انٹر نیٹ پر سنی اور اس وقت کی ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے تمام اراکین کے نا م اس خاتون نے لکھوائے ، انھوں نے کہا کہ وہ ویڈیو مجھے بھی موصول ہوئی تھی میں نے وسیم اختر کو سنوائی تو انھوں نے اپنا سر پکڑ لیا، اس تقریر کے دوران وسیم اختر وہاں موجود نہیں تھے ۔ وسیم اختر کی اہلیہ نے کہا کہ وسیم اختر کے تمام مقدمات میں صرف ایک ہی گواہ سامنے آسکا ہے جو کرمنل ہے اور اس پر مقدمات قائم ہیں اور وہ جھوٹی گواہیاں دینے میں مشہور ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وسیم اختر ایم کیو ایم پاکستان، ڈاکٹر فاروق ستار اور کراچی کی عوام کے ساتھ ہیں ، وہ ایک محب وطن پاکستانی ہیں ۔ ایک اور سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اجلاس کی اخبار میں شائع ہونے والی خبر میں پڑھا کہ عدالتوں میں ریٹائرڈ ججز کی تقرری سپریم کورٹ کے احکامات کے بر خلا ف ہے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سانحہ12مئی کی تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کیا جائے اور جو بھی اس سانحہ میں ملوث رہے ان کو شامل تفتیش کیا جائے ۔